• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پرویز الٰہی کا پہلا تقرر، 7؍ سے 22؍ گریڈ تک پہنچنے والا افسر پرنسپل سیکرٹری لگادیا

اسلام آباد (عمر چیمہ) سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد وزیراعلیٰ پنجاب پرویز الٰہی نے پہلا تقرر اپنے پرنسپل سیکریٹری کا کیا۔ حالانکہ اس وقت تک انہوں نے اپنے عہدے کا حلف تک نہیں اٹھایا تھا۔ محمد خان بھٹی نامی جس شخص کو انہوں نے اس عہدے پر رکھا ہے وہ وفاداری کی بہترین مثال سمجھے جاتے ہیں۔ انہوں نے سات گریڈ کے کلرک سے 22؍ گریڈ کے افسر تک کا سفر طے کیا ہے۔ صوبائی سرکاری ملازمین میں وہ پہلے افسر ہیں جو اعلیٰ ترین عہدے تک پہنچے ہیں۔ بھٹی کو جو کیریئر اور اس کے ساتھ جڑے تنازعات ملے ہیں وہ سب الٰہی فیملی کی مرہون منت ہیں۔ ان کا ایک بھتیجا ساجد بھٹی پنجاب اسمبلی میں ق لیگ کا پارلیمانی لیڈر ہے جس نے اپنی پارٹی کے ارکان صوبائی اسمبلی کو اُس وقت یہ حکم دیا تھا کہ پرویز الٰہی کو ووٹ دیں جب پارٹی کے سربراہ شجاعت حسین نے حمزہ شہباز کو ووٹ دینے کی ہدایات جاری کی تھیں۔ ایک اور بھتیجا اور ساجد کا بھائی واجد بھٹی منی لانڈرنگ کیس میں مونس الٰہی کیساتھ شریک ملزم ہے۔ اتفاق کی بات ہے کہ محمد خان بھٹی بھی اسی کیس کے شریک ملزم ہیں۔ بھٹی کے کیریئر کی شروعات 90ء کی دہائی سے شروع ہوتی ہے۔ ساجد اور واجد کے والد احمد خان بھٹی اس وقت گجرات کے چوہدریوں کے پاس کام کرتے تھے اور یہیں سے ان کے بھائی محمد خان بھٹی کو سات گریڈ میں بلدیاتی حکومت میں ملازمت ملی۔ اس وقت پرویز الٰہی بلدیاتی حکومتوں کے وزیر (1985ء تا 1993ء) تھے۔ پرویز الٰہی کی آشیرباد کیساتھ 1997ء میں محمد خان کو پنجاب اسمبلی میں بھرتی کیا۔ قلیل عرصہ میں ہی وہ 19؍ گریڈ تک پہنچ گئے۔ جنرل پرویز مشرف کی فوجی بغاوت کے بعد جب اسمبلی تحلیل ہوئی اور گجرات کے چوہدریوں نے جنرل مشرف سے ہاتھ ملایا۔ اس کے بعد محمد خان کی ترقی بھی جاری رہی۔ 2002ء میں انہیں وزیراعلیٰ پرویز الٰہی کے سیاسی امور کا ایڈیشنل سیکریٹری مقرر کر دیا گیا جس کے بعد انہیں پرویز الٰہی کی حکومت میں ہی اسپیشل سیکریٹری کی حیثیت سے ترقی دی گئی۔ ان کیلئے پرویز الٰہی کی خصوصی اجازت سے جی او آر اول کلب روڈ لاہور پر چار کنال کا گھر تعمیر کرایا گیا۔ 2007ء سے یہ گھر محمد خان بھٹی کی ملکیت میں ہے۔ 2008ء تا 2018ء کے دوران جب نون لیگ کی حکومت تھی تو پنجاب اسمبلی کے اسپیکر رانا اقبال نے محمد خان بھٹی کو ملازمت سے برطرف کر دیا لیکن لاہور ہائی کورٹ نے انہیں بحال کر دیا۔ 2018ء میں جب پرویز الٰہی اسپیکر بنے تو محمد خان بھی اسمبلی میں واپس پہنچے۔ ان ہی کی آشیرباد سے محمد خان کو مزید ترقی نصیب ہوئی جو ایک ریکارڈ ہے۔ انہیں صوبائی اسمبلی کا سیکریٹری لگا دیا گیا اور بعد میں 22؍ گریڈ میں ترقی دیدی گئی۔ شاید محمد خان بھٹی واحد افسر ہیں جنہیں صوبائی حکومت میں اعلیٰ ترین عہدے پر ترقی ملی ہے۔ اپنے اس نئے تقرر (وزیراعلیٰ کے پرنسپل سیکریٹری) کے بعد وہ چیف منسٹر سیکریٹریٹ کے اعلیٰ ترین افسر بن چکے ہیں۔ پرویز الٰہی فیملی کے ساتھ ان کے تعلقات صرف پنجاب اسمبلی تک محدود نہیں۔ اپنے پورے کیریئر کے دوران وہ پرویز الٰہی کے بربنائے عہدہ پولیٹیکل سیکریٹری رہے ہیں۔ الٰہی فیملی کے مالی معاملات میں بھٹی کا شامل ہونا بھی ایک الگ معاملہ ہے اور یہ بات مونس الٰہی کیخلاف جاری منی لانڈرنگ کیس کی تحقیقاتی رپورٹ میں بھی سامنے آئی ہے۔ 2007ء میں رحیم یار خان شوگر مل ای کنائب قاصد، نواز بھٹی اور ایک طالب علم مظہر عباس نے مل کر لگائی جس میں اول الذکر کا شیئر 31؍ فیصد جبکہ آخر الذکر کا حصہ 35؍ فیصد تھا۔ اس شوگر مل کے سرمایہ کی مالی 2008ء میں بڑھ کر 720؍ ملین روپے ہوگئی اور ان اثاثہ جات کے ذرائع غیر واضح رہے۔ مجوزہ بزنس کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر محمد عمر شہریار (خسرو بختیار کے بھائی) نے 2007ء میں رحیم یار خان شوگر مل قائم کرنے کیلئے این او سی کیلئے درخواست دی تو اس وقت وزیراعلیٰ پنجاب پرویز الٰہی نے اسے فوراً منظور کیا۔ نائب قاصد نواز اور ایک طالب علم مظہر نے 2011ء سے 2014ء کے درمیان اپنے شیئرز فروخت کر دیے لیکن خرید و فروخت غیر واضح رہی۔ مختلف ہاتھوں سے ہوتے ہوئے 34؍ فیصد شیئرز دو آف شور کمپنیوں (کیسکیڈ ٹیک پرائیوٹ لمیٹڈ اور ایکس کیپیٹل پرائیوٹ لمیٹڈ) نے خرید لیے۔ ایف آئی اے کا کہنا ہے کہ یہ دونوں کمپنیاں پرویز الٰہی کی ہیں۔ ایف آئی اے کی تحقیقات کے مطابق، مزید 10؍ فیصد شیئرز محمد خان بھٹی کے بھتیجے واجد (چیئرمین پبلک اکائونٹس کمیٹی ساجد بھٹی کے بھائی) نے حاصل کیے۔ مخدوم عمر شہریار (جن کے بھائی خسرو بختیار پرویز مشرف حکومت میں وزیر تھے) اور ان کے بہنوئی طارق جاوید کے پاس مجموعی طور پر 2020ء تک اس شوگر مل کے 31؍ فیصد شیئرز تھے۔ ایف آئی اے کو شبہ ہے کہ الٰہی فیملی نے پراکسی استعمال کرتے ہوئے شوگر مل کے قیام کیلئے فنڈز کی نوعیت کو چھپایا ہے۔ اگرچہ محمد خان بھٹی کے براہِ راست کردار کے حوالے سے ایف آئی اے کی رپورٹ میں کچھ نہیں لکھا لیکن انہیں اپنے بھتیجے واجد کی وجہ سے اس معاملے میں جوڑا گیا ہے۔ پرویز الٰہی کا نام بھی نہیں ہے لیکن ایف آئی آر میں لکھا ہے کہ ان کے نام بھی سامنے آ سکتا ہے۔ دوسری جانب ق لیگ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ محمد خان بھٹی کو نوازنے کے الزامات بے بنیاد ہیں ، ان کی 7گریڈ سے 22گریڈ تک ترقی آئین اور قانون کے مطابق ہوئی ہے اس سفارش کا کوئی عنصر شامل نہیں۔
اہم خبریں سے مزید