ہانیہ علی
اگر ہم اپنے اردگرد نظر دوڑائیں تو ہمیں ایسے بہت کم بچے نظر آئیں گے جو اس جدید دور میں پرانے روایتی کھیلوں میں دل چسپی رکھتے ہیں ۔جب کہ بچوں کی ذہنی اور جسمانی نشو ونما میں کھیلوں کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ان سے نہ صرف بچے تندرست، توانا اور چاق چوبند رہتے ہیں بلکہ اُن میں خود اعتمادی پیدا ہوتی ہے۔ وہ خوش بھی رہتے ہیں اور بچے کھیل کے ذریعے بہتر طریقے سے سیکھتے ہیں ۔یہ ان کی پرورش کا ایک اہم حصہ ہوتے ہیں ۔کھیل کے ذریعے ان میں سیکھنے کی لگن پیدا ہوتی ہے۔
کھیل صرف کھیل ہی نہیں بلکہ ایک ورزش بھی ہے، جس میں ہاتھ ،پیر اور دماغ کا استعمال ہوتا ہے۔ ساتھیوں سے میل جول کے باعث بچے میں جو خود اعتمادی اورسماجی تعلق پید اہوتا ہے، وہ مسائل حل کرنے میں مدد گار ثابت ہوتے ہیں۔ بچوں سے کھیل میں غلطیاں بھی ہوتی ہیں ،پھر وہ انہیں صحیح کرنے کی کوشش کرتے ہیں، یہ تجربہ انہیں سیکھنے میں مدد دیتا ہے ۔بچوں کو ایسے کھیلوں میں زیادہ شامل کریں، جس میں وہ ایک گروہ یا جماعت کی حیثیت سے حصہ لے سکیں۔
مثلاً: باغ بانی کرنا،کمروں کو سجانا ،دیواروں پر رنگ کرنا وغیرہ ۔اس طرح کے کھیلوں سے بچوں میں تعاون کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ اگر بچوں کے درمیان باہمی رابطہ نہ ہو تو وہ اپنے خول میں بند ہوکر رہ جاتے ہیں۔ بچپن کا یہ میل جول آگے چل کر بچے کو معاشرےکا ایک اہم رکن بناتا ہے۔ یہ بات کم عمری ہی میں بچے کو ذہن نشین کرا دیں کہ وہ ہر چیز کا مقابلہ ضرور کرے لیکن یہ بھی یاد رکھےکہ جن کے ساتھ وہ کھیل رہا ہےوہ اس کے دوست ہیں۔ اس طرح ان میں آپس میں سیکھنے اور سکھانے کا جذبہ بھی پید اہوتا ہے۔ کھیل کے ذریعے بچوں کی قوت تحیل میں وسعت و استحکام اور نظم و ضبط پیدا ہوتا ہے ۔اس کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ یہ ایک اچھی ورزش ہے۔ ایسے بچوں کی تعداد بہت کم ہے جو ہفتے میں چند گھنٹے بھی ورزش کرتے ہیں۔
نت نئی ایجادات نے ان کے لیے ایسی دل چسپی پیدا کردی ہے کہ وہ کچھ اور کرنے کا سوچتے ہی نہیں، یہ ہی بات ان کی صحت کے لیے نقصان دہ ہے۔ اگر آپ کا بچہ بہت چھوٹا ہے اور گھر سے باہر اُسے کھیلنے کی اجازت نہیں ہے تو انہیں گھر میں کھیلنے کے لیے کاغذ، پینسل، رنگ، ربن، کپڑے کی کترنیں اور اسی طرح کی دوسری چیزیں دیں، تاکہ وہ اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو استعمال کریں۔ اس طرح بچوں کی قوت ِسوچ میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔