• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امریکا تائیوان کو چین کا حصہ تسلیم کرکے منحرف کیوں ہوا؟

چین نے پچھلے 40 برس میں کوئی بڑی جنگ نہیں لڑی ہے لیکن تائیوان اس کے لیے جنگ چھیڑنے کی وجہ بن سکتا ہے۔

تائیوان چین کے لیے ضروری کیوں ہے؟

1949 کی افیونی جنگ کے دوران چین نے بھاری نقصان اٹھایا تھا۔ جس کی تمام تاریخی نشانیوں کو چین نے یا تو ختم کردیا یا حل کردیا، جیسا کہ ہانگ کانگ اور مکاؤ کے علاقے لیکن تائیوان کا قضیہ حل نہ ہوسکا۔

تائیوان چین کا ہی علاقہ تھا لیکن جاپان کے ساتھ 1894 سے 1895 تک ہونے والی جنگ کے بعد چین کو تائیوان سے دستبردار ہونا پڑا۔

مغربی طاقتوں نے چین کو تائیوان کے معاملے پر کئی بار دھوکہ دیا۔ جنگ عظیم اول کے اختتام پر چین کو امریکا اور برطانیہ کی طرف سے یقین دہانی کروائی گئی کہ ورسائی امن کانفرنس (Versailles Peace Conference) کے دوران تائیوان چین کو واپس کر دیا جائے گا۔

ورسائی معاہدوں کے تحت جرمنی کو اپنی دیگر نوآبادیوں کے ساتھ ساتھ چینی سرزمین پر موجود اپنے علاقوں سے دستبردار ہونا تھا۔

چین نے یہ اخذ کیا کہ یہ نئے علاقے بشمول تائیوان اس کے حصے میں آئیں گے کیونکہ چین نے ایک لاکھ شہریوں کو یورپ میں برطانیہ اور فرانس کی مدد کے لیے بھیجا تھا۔

لیکن یہ علاقے چین کے بجائے جاپان کو دے دیے گئے، مغربی اتحادیوں نے چین اور جاپان دونوں سے بیک وقت خفیہ معاہدے کیے تاکہ انہیں مغرب کا اتحادی برقرار رکھا جائے۔

اس کے بعد چین کو احساس ہوگیا کہ مغربی ممالک نے اس کے ساتھ دھوکہ کیا ہے، 4 مئی 1919 کو چین میں بہت بڑے پیمانے پر احتجاجی مظاہرے شروع ہوگئے۔

چینی قوم کے حافظے میں ’4 مئی تحریک‘ کی یادیں اب بھی محفوظ ہیں، اسی لیے امریکا یا کسی بھی مغربی ملک کی طرف سے تائیوان کو چین سے علیحدہ کرنے کی کوشش اُن تاریخی یادگاروں کو دوبارہ تازہ کر دیتی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ چین ایک مضبوط اور طاقتور قومی ردعمل کا مظاہرہ کرتا ہے۔

امریکا کا کردار:

70 کی دہائی میں رچرڈ نکسن کی صدارت کے دوران اس وقت کے امریکی سیکرٹری خارجہ ہینری کسنجر نے چین کے ساتھ مصالحت کا عمل شروع کیا۔

1972 کو ایک مشترکہ بیان میں امریکا نے تسلیم کیا کہ ’تائیوان چین کا حصہ ہے، امریکی حکومت اس حیثیت کو چیلنج نہیں کرتی، ہم چاہتے ہیں کہ چین خود ہی تائیوان معاملے کا پُرامن حل نکالے‘۔

تائیوان کے لیے چین کی روشن خیال پالیسیز:

یہ بہت قابل ذکر بات ہے کہ چین کی تمام حالیہ حکومتوں نے اپنی پچھلی پالیسیز سے ہٹ کر تائیوان کے ساتھ تعلقات کو مستحکم کرنے کی کوشش کی ہے۔

2008 میں ایک لاکھ 88 ہزار 744 تائیوانی شہری چین کی سیاحت کے لیے گئے جبکہ چین کے 3 لاکھ 29 ہزار 204 شہری تائیوان گئے۔

2008 سے 2016 تک دونوں ممالک میں تعلقات بہتر ہوئے اور 2016 کے دوران 36 لاکھ تائیوانی شہری چین کی سیر کو گئے جبکہ 42 لاکھ کے قریب چینی شہریوں نے تائیوان میں سیاحت کی۔

اگر امریکا چین کی تائیوان کے لیے روشن خیال پالیسیز کا جائزہ لینا چاہتا ہے تو اسے چاہیے کہ کیوبا کے لیے اپنی پالیسیز کا چین کی پالیسیز کے ساتھ موازنہ کرے۔

کسی امریکی صدر نے آج تک کیوبا کے مقبول رہنما فیڈل کاسترو سے ملاقات نہیں کی لیکن چینی صدر شی جن پنگ نے تائیوان کے ما ینگ جیاؤ سے سنگاپور میں 2015 کے دوران ملاقات کی تھی۔

یہ تمام معلومات سنگاپور کے سابق سفارتکار کشور مہبوبنی کی کتاب
Has China Won سے لی گئی ہیں۔ وہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے صدر بھی رہ چکے ہیں۔

خاص رپورٹ سے مزید