بلوچستان میں مون سون بارشوں کی تباہ کاریاں جاری ہیں ، ایک ماہ کی مسلسل بارشوں اور سیلابی ریلوں کے باعث بلوچستان میں انسانی المیہ درپیش ہے، بلوچستان کے پہلے ہی سے کمزور انفراسٹرکچر کو مسلسل طوفانی بارشوں اور سیلابی ریلوں نے پوری طرح تباہ کرکے رکھ دیا ہے ان سطور کے تحریر کیے جانے تک سرکاری اعداد و شمار کے مطابق صوبے بھر میں شدید بارشوں اور سیلابی ریلوں سے ڈیڑھ سو سے زائد اموات ہوئی ہیں جبکہ قومی شاہراہیں بھی تباہی کا منظر پیش کررہی ہیں، زرعی شعبے کو پہنچے والے نقصانات کی تلافی تو شائد اگلے کئی سالوں میں بھی ممکن نظر نہیں آرہا۔
گلہ بانی کے شعبے کو بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچ چکا ہے اب تک جو نقصانات سامنے آئے ہیں اصل نقصانات اس سے کہیں زیادہ ہیں ،طوفانی بارشوں کے بعد سیلابی ریلے جہاں جہاں سے گزرئے وہاں تباہی کی المناک داستانیں چھوڑ گئے ، متاثرہ علاقے تباہی اور وہاں کے متاثرین بے بسی کی تصویر بنے ہوئے ہیں ، صورتحال کے تباہ کن ہونے کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ وزیراعظم میاں شہباز شریف بلوچستان صرف تین دن کے اندر بلوچستان کے دو دورئے کرچکے ہیں ، پہلے دورئے میں وزیراعظم نے جھل مگسی اور دوسرئے دورئے میں کوئٹہ، قلعہ سیف اللہ اور چمن کے متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا ہے۔
حالیہ مون سون کی بارشوں کی تباہ کاریوں سے بلوچستان سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے، اصل نقصانات تو سیلابی صورتحال کے خاتمے اور سروئے کے بعد صیح طور پر سامنے آئیں گے ، تاہم یہ نقصنات وسیع پیمانے پر ہیں وزیراعلیٰ بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو نے کچھ دو ہفتے قبل واضح انداز میں کہا تھا کہ اگر نقصانات کے ازالے کے لئے 50 ارب روپے بھی ملیں تو یہ کم ہوں گے، یاد رہے کہ جولائی کے وسط میں سب سے پہلے صوبائی وزیر زراعت میر اسد اللہ بلوچ نے وفاقی حکومت سے ایک پریس کانفرنس کے زریعے بلوچستان کو تباہ کن بارشوں کے نقصانات کے ازالے کے لئے 50 ارب روپے کا پیکیج دینے کا مطالبہ کیا تھا۔
ابتدا میں ان کے مطالبے کو بہت بڑا تصور کیا گیا تاہم اب تک جو صورتحال سامنے آئی ہے اس کے بعد 50 ارب روپے کا مطالبہ نہ صرف درست بلکہ کم نظر آرہا ہے یہاں یہ بات بالکل واضح ہے کہ بلوچستان حکومت کے لئے اپنے وسائل کے اندر رہتے ہوئے اتنے بڑئے پیمانے کے نقصانات کا ازالہ قطعی طور پر ممکن نہیں بلکہ مستقبل میں متاثرین کی بحالی بھی تنہا صوبائی حکومت کے لئے ممکن نہیں ہوگا، صوبے میں بڑئے پیمانے پر گھر مہندم ، فصلیں تباہ ، زرعی بند متاثر ہوئے ہیں، بلوچستان میں مون سون میں یہ اب تک ہونے والی ملک کی تاریخ کی سب سے زیادہ بارشیں ہیں ، وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی جانب بارشوں میں جاں بحق ہونے والے افراد کے لواحقین کو 10 ، 10 لاکھ کی امداد کا اعلان کیا گیا تھا۔
بلوچستان میں بارشون کی تباہ کاریوں کا اندازہ تو بارشوں کے بعد ہونے والے سروئے میں سامنے آجائے گا لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ وفاقی حکومت بلوچستان میں ہونے والی تباہ کاریوں کے ازالے کے لئے جنگی بنیادوں پر اقدامات اٹھائے جتنے بڑئے پیمانے پر تباہ کاریاں ہوئی ہیں اس میں تو اقوام متحدہ کے امدادی اداروں سمیت دیگر سے بھی امداد کی اپیل وقت کی ضرورت ہے، بلوچستان میں پہلے ہی سہولیات کا فقدان ہے ، لوگوں کی اکثریت بنیادی سہولیات تک سے محروم ہے، روزگار کے مواقع محدود ہونے کی وجہ سے عوام کا معیار زندگی بھی اکسویں صدی کے مطابق نہیں اس تمام صورتحال میں اپنی مدد آپ کے تحت عوام زراعت سمیت دیگر زرائع سے گزر بسر کرتے ہیں۔
حالیہ جاری بارشوں سے جہاں وسیع پیمانے پر جانی نقصانات ہوئے جن کا کوئی ازالہ ممکن نہیں لیکن دوسری جانب عوام کی ایک بڑی تعداد کا زریعہ روزگار بھی چھن گیا ہے، بلوچستان میں گزشتہ چند دہائیوں سے موسمی تبدیلیوں کی تباہ کاریاں نمایاں ہیں، کبھی معمول سے کم بارشیں ہوتی ہیں بلکہ نہیں ہوتی ہیں تو اس سال ملک کی تاریخ میں بلوچستان میں اب تک ریکارڈ بارشیں ہوچکی ہیں تو دوسری جانب بلوچستان کا کمزور انفراسٹرکچر ایسی بارشوں کا سامنا نہیں کرسکا اور نتیجہ سامنے ہے ، بلوچستان کا ایک وسیع علاقہ 2010 اور 2012 کے سیلابی ریلوں سے بری طرح متاثر ہوا تھا۔
اس دوران بھی بلوچستان کا زرعی شعبہ تباہ ہوا تھا جبکہ اس بار بھی سب سے زیادہ نقصان زرعی شعبے کو پہنچا ہے جو بلوچستان کے عوام کے لئے روزگار کا بڑا زریعہ ہے ، حالیہ بارشوں سے بلوچستان کے بعض علاقوں میں ڈیمز بھی متاثر ہوئے ہیں، عوامی حلقوں کی جانب سے اس پر شدید ردعمل بھی سامنے آیا اور بعض حلقوں کی جانب سے اس کی تحقیقات کا مطالبہ بھی کیا گیا کہ یہ معلوم کیا جائے کہ ڈیمز بارشوں سے متاثر ہوئے ہیں یا ان کی تعمیر میں غیر معیاری میٹریل استعمال یا کرپشن کا کوئی عنصر تو نہین جس کے بعد وزیراعلیٰ میر عبدالقدوس بزنجو نے وزیراعلیٰ معائنہ ٹیم کو ہدایت کی ہے کہ وہ ڈیمز کی تعمیر کے معیار کا جائزہ لے ساتھ ہی انہوں نے یقین دہانی کرائی کہ ڈیمز کی تعمیر معیاری نہ ہونا ثبات ہوا توکی ذمہ داروں کیخلاف سخت کارروائی عمل میں لائی جائیگی۔
یاد رہے کہ بلوچستان میں گزشتہ چند سالوں کے دوران صوبے میں پانی کی قلت کے مسلے اور زیرزمین پانی کی گرتی ہوئی سطح کو بہتر بنانے کے لئے ڈیمز کی تعمیر پر خصوصی توجہ دی جارہی ہے سابق اور موجودہ دور ھکومت میں ڈیمز کی تعمیر کے لئے فنڈز مختص کیے گئے جبکہ چھوٹے اور درمیانے درجے کے ڈیمز کی تعمیر سے یقینی طور پر بلوچستان میں جہاں بارشوں کا پانی جمع ہونے سے رزعی شعبے پر اس کے بہتر اثرات مرتب ہوئے وہاں امید کی جارہی ہے کہ مستقبل میں زیر زمین پانی کی گرتی ہوئی سطح کے سنگین مسلے سے نمٹنے میں آسانی ہوگی حالیہ بارشوں کے بعد صوبے کے ڈیمز پانی سے بھر گئے ہیں جن سے بلوچستان کے عوام کو کسی حد تک سہولت ہوگی ، یہ سب مستقبل میں ہونے کی امید ہے ۔