کراچی، ٹوٹی سڑکوں ، گڑھوں، مخدوش عمارتوں،کیچڑ ، بارش کے پانی کے سبب جنگی علاقے کا سماں پیش کررہا ہے۔ مون سون کے تیسرے اسپیل نے کراچی اور حیدآباد کو ڈبو دیا سندھ بھر میں ہونے والی بارش سے 100 سے زائد قیمتی جانوں کا نقصان ہوا جبکہ کراچی اور حیدرآٓباد کے تقریباً تمام کاروباری مراکز ،ہول سیل مارکیٹوں، بازاروں میں بارش کا پانی تا حال موجود ہے پانی گوداموں اور دکانوں میں داخل ہونے سے تاجروں کا اربوں روپے کا بھی نقصان ہوا جبکہ کراچی وحیدرآباد میں نالوں کی مناسب صفائی نا ہونے کے سبب بارش کے پانی نے گھروں میں داخل ہو کر تباہی مچا دی کراچی کے کئی علاقوں کھارادر ،کیماڑی ،ایف بی ایریا ،لیاقت آباد ،ڈیفنس، سرجانی، بنارس، کورنگی، اورنگی، قائدآباد، لیاری،ناظم آباد، نارتھ کراچی میں بارش نے تباہی مچا دی کئی علاقوں سے مکینوں نے نقل مکانی کی جبکہ کراچی سمندر کا منظر پیش کرتا رہا اس دوران اکا دکا مقامات پر وزیر اعلیٰ کے احکامات کے بعد بلدیہ کا عملہ بیلچوں اور جھاڑو کی مدد سے نمائشی طور پر بارش کا پانی نکالنے کی سعی ناکام کرتا رہا۔
تاہم پی ڈی ایم اے کے عملے کے مطابق انہیں وزیر اعلی نے ڈیفنس کے بعض علاقوں سے پانی نکالنے کی ہدایت کی تھی واضح رہے کہ ڈیفنس میں سندھ حکومت کے وزرا اور ارکان اسمبلی رہائش پذیر ہے اور یہ علاقے بلدیہ کے زیر انتظام بھی نہیں آتے تمام حکومتی ادارے اس آفت میں غائب رہے جن کے لیے اربوں کا فنڈ مختص کیا جاتا ہے بلدیہ کے اہلکار تو درکنار 1122 پی ایم ڈی اے، کنٹونمنٹ سمیت تمام اداروں نے شہریوں کو قدرت کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا تھا کراچی کے پوش علاقے جہاں اربوں کا ٹیکس قومی خزانے میں جمع کرنے والے رہائش پذیر ہے دہاہیاں دیتے نظر آئے۔
کلفٹن ،پی ای سی ایچ ایس ،ڈی ایچ اے، بہادرآباد ،طارق روڈ دھوراجی کے علاقے بھی بارش میں ڈوب گئے اور ان ایریاز میں تادم تحریر بارش کا پانی موجود ہے ڈیفنس میں قائم پی ڈی ایم اے کےدفتر کے سامنے کا ایریا پانی میں ڈوبا رہا اس پر کے الیکٹرک نے عوام کو دوہرے عذاب میں مبتلا رکھا اور متعدد علاقوں میں اٹھارہ اٹھارہ گھنٹوں کی لوڈ شیڈنگ کر کے عوام کی مشکلات میں اضافہ کیا سیاسی جماعتوں نے اس صورت حال کا ذمہ دار پی پی پی حکومت کو ٹھہراتے ہوئے فوری طور پر ایڈ منسٹریٹر کراچی مر تضی وہاب کو برطرف کرنے کا مطالبہ کیا ہے حکومت سندھ اسمبلی بلدیہ عظمی کی عمارت، کنٹونمنٹ بورڈ کلفٹن کا مرکزی دفتر، قائد اعظم کی جائے پیدائش اور تاریخی عمارتوں سمیت جناح اسپتال ،سول اسپتال کو نہیں بچا سکی تو عام شہریوں کو کیا بچاتی۔
سیاسی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ کراچی اس لیے ڈوبا کہ سندھ کابینہ کے ایک آدھ وزیر کے علاوہ یہ وزیر اعلی سمیت کابینہ کے افراد کا حلقہ انتخاب نہیں اس لیے وہ عوام کو بھی جوابدہ نہیں ادھرکراچی اور حیدرآباد میں بلدیاتی انتخابات ملتوی ہونے پر سیاسی حلقوں تفتیش پائی جاتی ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ اب انتخابات طویل عرصے کے لیے ملتوی کردیئے گئے ہیں یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ سندھ میں دوسرے مرحلے کے بلدیاتی انتخاب پی پی پی اور ایم کیو ایم میں طے ہونے والے معاہدہ پر عمل در آمد کے بعد ہی منعقد ہونگے واضع رہے کہ ایم کیو ایم نے پی ٹی آئی کی حکومت کا ساتھ جن شرائط پر چھوڑا تھا ان میں سے ایک شرط یہ بھی تھی کہ سندھ کے شہری علاقوں کی نئی حلقہ بندیاں کی جائے۔
ذرائع کے مطابق معاہدہ پر عمل درآمد کی ذمہ داری جن حلقوں نے لی تھی انہوں نے پی پی پی کو کراچی اور حیدرآباد میں نئی حلقہ بندیوں پر راضی کیا ہے یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ نئی حلقہ بندیوں کے سبب دوسرے مرحلے کے بلدیاتی انتخاب اکتوبر میں ہونگے بلدیاتی انتخاب کے موخر ہونے سے ایم کیو ایم اور پی پی پی کو فائدہ جبکہ جما عت اسلامی، تحریک لبیک اور پی ٹی آئی کوسیاسی نقصان ہوا ہے موجودہ صورت حال میں جماعت اسلامی اور تحریک لبیک کی انتخابی مہم زوروں پر تھیں خصوصاً ـ بارش میں دونوں جماعتوں کے کارکنوں نے عوام کی بھر پور خدمت کی تھی جبکہ نکاسی آ ب میں بھی حکومت اور اداروں کی معاونت کی تھی تو دوسری طرف ایم کیو ایم اورپی پی پی سے عوام قدرے ناراض تھے اور انتخابی مہم کے دوران ان سے حکومت میں رہتے ہوئے کراچی اور حیدرآباد کے لیے ترقیاتی کام نا کرنے پر جواب طلب کر رہے تھے۔
جبکہ پی پی پی کو بھی اسی صورت حال کا سامنا تھا دوسری طرف ایم کیو ایم کے ووٹ بھی تین پارٹیاں تقسیم کر رہی تھی ان میں سے ایک پی ایس پی دوسر ی مہاجر قومی موومنٹ اورتیسری فاروق ستار کی پارٹی تھی ڈاکٹر فاروق ستار نے کراچی میں یونین کمیٹیوں میں 75جبکہ حیدرآباد میں 30 پینل کھڑے کئے ہے یہی نہیں انہوںں نے تالے کے نشان سے آزاد حیثیت میں این اے 245 سے الیکشن لڑنے کا بھی اعلان کیا ہے اب الیکشن موخر ہونے کے بعد ایم کیو ایم کو فاروق ستار سے بات چیت کرنے کے لیے وقت مل جائے گا اگر یہ بات چیت کامیاب رہتی ہے تو این اے 245 پر ایم کیو ایم کی پوزیشن مضبوط ہو جائے گی وگرنہ اس صورت حال میں اس نشست پر تحریک لبیک کی پوزیشن مضبوط ہے۔
دوسری جانب نئی حلقہ بندیوں اور فاروق ستار سے کامیاب بات چیت کے بعد ایم کیو ایم دوسرے مرحلے کے انتخاب میں مقابلے کی پوزیشن میں آجائے گی اس دورا ن جماعت اسلامی اور تحریک لبیک نے جو انتخابی ماحول بنایا ہے وہ ٹوٹ جائے گا دوسری جانب پنجاب میں پی ٹی آئی کی بھرپور کامیابی کے بعد اس کا اثر این اے 245کے حلقے اور بلدیاتی انتخاب پر بھی پڑ رہا تھا ان حالات میں اگر انتخابات ہوتے تو پی پی پی اور حکومتی اتحادی جماعتوں کو عوام کے غیض و غضب کا سامنا کرنا پڑتا انتخاب موخر ہونے سے اب یہ ماحول نہیں بن پائے گاجبکہ پی پی پی بھی اس دوران شہری مسائل پر توجہ دے کر عوام کی ناراضی قدرے دور کر لے گی ۔