الیکشن کمیشن نے آٹھ سال قبل پاکستان تحریک انصاف کے رکن اکبر ایس بابر کی طرف سے پارٹی کے چیئرمین عمران خان کے خلاف،غیر ملکی شخصیتوں اور غیر ملکی کمپنیوں سے ممنوعہ فنڈز حاصل کرنے کے خلاف پٹیشن کا فیصلہ سنا دیا ہے، چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کی سربراہی میں شاہ محمد جتوئی اور نثار احمد پر مشتمل تین رکنی بینچ نے اپنا فیصلہ سناتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف پر بیرونی ملک سے ممنوعہ فنڈزلینے کے الزامات ثابت ہو گئے ہیں ،پی ٹی آئی کو اظہار وجوہ کا نوٹس جاری کر دیا گیا ہے کہ کیوں نہ یہ فنڈز ضبط کر لئے جائیں ، بھارت اور اسرائیل سمیت 34 غیر ملکی شہریوں اور 351 غیر ملکی کمپنیوں سے فنڈنگ کی تصدیق ہو گئی ہے ،جس میں پی ٹی آئی کے اکاونٹس میں 150 کروڑ سے زائد کی رقم منتقل ہوئی ،تحریک انصاف کے چئیرمین نے فارم ون اور بیان حلفی میں غلط بیانی کی ،پی ٹی آئی نے آٹھ اکاونٹس کی ملکیت ظاہر کی 13 اکاونٹس کو پوشیدہ رکھا۔
قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ ممنوعہ فنڈنگ کے قانون کے مطابق الیکشن کمیشن ایکٹ 2017 کے سیکشن 204 کی سب سیکشن 3 کے تحت کسی بھی سیاسی جماعت کو بلواسطہ یا بلاواسطہ حاصل ہونے والے غیر ملکی فنڈز ممنوعہ فنڈز کے زمرے میں آتے ہیں ،جو الیکشن کمیشن بحق سرکار ضبط کرنے کا اختیار رکھتا ہے، غیر ملکی شخصیتوں، کمپنیوں یا حکومتوں سے فنڈز حاصل کرنے والی جماعت پر پابندی بھی عائد کی جا سکتی ہے ،پاکستانی تاریخ میں اب تک صرف ایک سیاسی جماعت مولانا بھاشانی کی نیشنل عوامی پارٹی پر پابندی عائد کی گئی تھی اور اس پر بھارت سے فنڈنگ کا الزام عائد کیا گیا تھا، عمران خان کی پی ٹی آئی کے خلاف ممنوعہ فنڈنگ کا متفقہ فیصلہ سنانے والے چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ، شاہ محمد جتوئی اور نثار احمد کو خطر ناک نتائج کی دھمکیاں آنا شروع ہو گئی ہیں اور انہوں نے انتباہ کیا ہے کہ انہیں کچھ ہوا تو ذمہ دار عمران خان ہوں گے۔
پاکستان کی بڑی سیاسی جماعتو ں کی حقیقت سامنے آئی ہے کہ سیاسی جماعتوں نے سیاسی تاریخ ٗ سیاستدانوں اور شریکِ اقتدار اداروں کو عملی طور پر نااہل اور نکمے ثابت کر دیا ہے جو ملک پر 55 ارب ڈالرز کا قرضہ چڑھا چکے ہیں مگر ان کا انداز زندگی شاہانہ ہی نہیں بادشاہوں جیسا ہےجو ایک ارب 20 کروڑ ڈالرز کے لیے صرف آئی ایم ایف کے ترلے ہی نہیں کر رہے بلکہ جن کا آرمی چیف امریکی حکومت سے سفارش پر مجبور ہو گیا ہے،بدقسمتی دیکھئے کہ مہنگائی سر چڑھ کر بول رہی ہے، ڈالر کی قیمت میں اضافے کی وجہ سے قرضوں کا بوجھ دگنا ہو گیا ہے مگر سیاسی قیادت مسئلے پر مسلسل غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کر رہی ہے۔
حکومت اور اپوزیشن دونوں ایک دوسرے کو چور ،ڈاکو اور سیکیورٹی رسک قرار دے رہے ہیں، ضرورت اس امر کی ہے کہ مل بیٹھ کر اپنا ایجنڈا پیش کریں اور ملک کو معاشی بحران سے نکالنے کے لیے ایک دوسرے کو برداشت کریں، اندرون ملک سے سوا ارب ڈالر اکٹھا کرنے کی کوشش کریں، قوم کو اعتماد میں لیں، عیاشی کو پس پشت ڈال کر پاکستان کو خوددار ممالک کی صف میں شامل کے لیے آگے بڑھیں ورنہ اس دھرتی ماں کو چھوڑ کر کنارہ کشی کر لیں، ہماری سیاسی تقسیم یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ ہم بحثیت قوم نظر ہی نہیں آتے متحارب گروہوں کا روپ دھار چکے ہیں۔
ایک دوسرے کا مینڈیٹ بھی تسلیم نہیں کرتے، اختلاف کرنے والے کو فورا مخالفین کی صف میں کھڑا کر دیتے ہیں، اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان اپنی علاقائی اہمیت کی وجہ سے ہمسایوں سمیت کئی ممالک کی آنکھوں میں کھٹکتا ہے جو اسے کمزور کرنے کے درپے رہتے ہیں مگر بد قسمتی سے ہم اکھٹے ہو معاملے کو سنبھالنے کی بجائے ایک دوسرے پر الزام تراشیاں ضروری سمجھتے ہیں، پوری قوم اپنی اپنی سیاسی جماعتوں اور قائدین پر زور دیں کہ پہلے وہ ملک کے معیشت کو سہارا دیں ،قانون و آئین پر چلنے کا عزم کریں، عوام کو دو وقت کی روٹی یقینی بنانے کے لیے سامان تعیش پر پابندی لگا دیں،بڑی اور مہنگی گاڑیوں کی درآمد سے بھی گریز کیا جائے۔
افسرشاہی بھی اپنے فرائض ایمانداری سے ادا کرے،قدرتی آفات سے بچاؤ کے لیے منصوبہ بندی کر کے عوام کو بھی آگاہی فراہم کی جائے اور ریلیف پروگرام میں یونیورسٹی سٹوڈنٹس کے علاؤہ نوجوانوں کو بھی شریک کیا جائے، قدرتی آفات کے متاثرین کو جلد سے جلد ریلیف پہچایا جائے اور اس ضمن میں عوام کو اعتماد میں بھی لیا جائے۔ ہمارے سیاستدان اور قومی قیادت مل جل کر عوام کو کبھی کھوکھلے مگر دلکش نعروں سے، کبھی مزہب کی آڑ میں اور کبھی ایک دوسرے پر بھرے بازار میں جعلی لفاظی کے سہارے قوم کو بیوقوف بناتے ہیں۔
ہماری داستان تک نہ ہو گی داستانوں میں، قیام پاکستان کے بعد گو کہ بھارت نے پاکستان کو وسائل سے کچھ نہیں دیا مگر اس کے باوجود قوم نے خود داری کا مظاہرہ کیا، 1954ء تک امریکی ڈالر تین روپے اکتیس پیسے میں میسر تھا، 1955ء میں ڈالر کی قیمت میں 60 پیسے اضافہ ہوا اور 1956ءمیں ڈالر مزید 85 پیسے مہنگا ہو گیا مگر 1971ء تک 4روپے76 پیسے پر ہی ٹکہ رہا، دسمبر 1971 میں پاکستان دو لخت ہو گیااور 1972ء میں ڈالر کی قیمت اچانک دگنی سے بھی زیادہ گیارہ روپے ہوگئی تاہم 1973ء میں ایک روپیہ کمی آئی اور 9 برس تک روپیہ مستحکم رہا،2017ء تک ڈالر110 روپے کا رہا مگر پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان انتخابات میں دھاندلی کے الزامات کے ساتھ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں پارلیمنٹ کے سامنے پہنچ گئے جہاں انہوں نے پاکستان عوامی تحریک کے ساتھ مل کر 126 روزہ دھرنا دیا اور کمشن کے قیام کے اعلان کے بعد دھرنا ختم کیا، جس کے بعد منتخب وزیراعظم پر کرپشن کے الزامات پر ریفرنس دائر ہوا نواز شریف کو نااہل قرار دےدیا گیا۔
احتساب عدالتوں نے نواز شریف ،مریم نواز اور کپٹن صفدر کو قید وجرمانے کی سزائیں سنائی، باپ، بیٹی اور داماد جیل گئے 2018ء کے انتخابات میں عمران خان کی حکومت بنی اور ڈالر 110 سے 139روپے تک پہنچ گیا صرف ایک سال میں 25 روپے کا جمپ لیا اور 2019 میں 164 روپے کا ہوگیا، 5روپے کے اضافہ کے ساتھ 2020ء میں 169 روپے اور دس روپے اضافہ کے ساتھ2021 میں 179روپےتک پہنچ گیا۔
اپوزیشن نے عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد منظور کی تو ڈالرز کی قیمت 255 تک پہنچ گئی ہے، موجودہ حکومت کے آنے کے بعد ڈالر میں مسلسل اضافہ کے بعد اب حیران کن کمی سے یقینا معاشی صورتحال میں بہتری کی امید کی جاسکتی ہے لیکن جب تک ساری سیاسی جماعتیں میثاق معیشت کیلئے ایک پیج پر جمع نہیں ہوگی اس وقت تک عام آدمی کی حالت بدلنے کی امید نہیں کی جاسکتی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ فوری طور پر ایسا لائحہ عمل مرتب کیاجائے جس سے ناصرف پاکستانی معیشت اپنے پائوں پر کھڑی ہوجائے بلکہ عام آدمی بھی سکھ کا سانس لیں۔