• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج کی بیش تر خواتین نہیں جانتیں کہ ماضی میں استعمال چیزوں کے نام کیا تھے۔ جدیدیت نے ماضی کو دفن کر دیا۔ اس ہفتے ہم ان چند چیزوں کے نام بتا رہے ہیں۔

رکابی: جسے جدید دور میں پلیٹ کہتے ہیں۔

سینی: گول بڑی پلیٹ یا پلیٹر کو کہتے تھے۔

سلفچی یا چلمچی: خوبصورت سا پیتل کا ایک برتن جس میں مہمانوں کے ہاتھ کھانے سے پہلے دھلوائے جاتے تھے۔

الگنی: وہ رسی جس کو دیوار پہ باندھا جاتا تھا اور اس پہ کپڑے سکھائے جاتے تھے۔

طاق: دیوار میں بنی ایک چھوٹی سی بغیر دروازے کی کھڑکی، جس میں سرِ شام چراغ جلا کے رکھے جاتے تھے۔

گھڑونچی: لکڑی سے بنایا گیا ایک ا سٹینڈ ،جس میں اوپر کی جانب دو یا تین بڑے بڑے سوراخ ہوتے تھے ،جس میں مٹکوں کے پیندے سما جاتے تھے ،تاکہ گرنے سے بچ سکیں۔

نعمت خانہ: لکڑی سے بنائی گئی ایک خوبصورت سی الماری جس کی لمبائی چوڑائی ایک فریج کے برابر یا چھوٹی بھی ہوتی تھی لیکن اس کی دیواریں چاروں طرف سے جالی کی لگائی جاتی تھیں، تاکہ اس میں ہوا گزرتی رہے اور اس میں رکھی جانے والی کھانے کی چیزیں ٹھنڈی رہیں اور خراب نہ ہوں۔

بھگونہ: ایک کھلے منہ کی چھوٹے کنارے کی پتیلی جس میں عمومًا چاول پکائے جاتے ہیں۔

بادیہ: تانبے کا بنا بڑا سا کھلے منہ کا کٹورہ ،جس میں بچا ہوا گوندھا آٹا رکھا جاتا تھا۔

کٹورہ: یہ بھی تانبے کا بنا ایک خوبصورت کٹ ورک سے بنا برتن ہوتا تھا ،جس کے اوپر اس کا ڈھکن جو آسانی سے کھولا اور بند کیا جا سکے اس کی جگہ گلاس نے لے لی ہے۔

چھینکا: یہ لوہے کے چپٹے تاروں سے بنا جو آج کل کے مکرامے جیسا ہوتا تھا اسے ایک کنڈے میں چھت سے لٹکا دیا جاتا تھا، جس میں پیاز ،سبزیاں وغیرہ رکھی جاتی تھیں۔

سمسی: لوہے کا ایک قینچی نما کڑا جو پتیلیوں اور بھگونوں کو چولہے سے اتارنے کے کام آتا تھا۔