• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وہ فجر کے وقت اُٹھی نماز پڑھ کر کچن میں آئی۔ چولہے پر چائے کا پانی رکھ کر، بچوں کو جگایا، تاکہ وہ اسکول جانے کے لیے تیار ہوسکیں۔ واپس کچن میں آکر ساس سسر کے لیے چائے بنائی۔ بچے تیار ہوکر آئے تو ان کو ناشتہ کرایا، بچوں کا لنچ بکس بنایا۔ بچوں کی وین آگئی۔ تو اُنہیں اسکول کے لیے روانہ کیا۔ میز سے برتن سمیٹ رہی تھی کہ شوہر آفس کے لیے تیار ہونے گئے بھاگم بھاگ ان کی تمام چیزیں ان کو دیں اور جلدی سے کچن میں آکر شوہر کا ناشتہ بنانے لگی۔ ابھی ایک پراٹھا اور انڈا ہی بنا تھا کہ چھوٹی نند کچن میں آئی یہ کہہ کر جلدی جلدی ناشتہ کرنے لگی کہ مجھے کالج سے دیر ہورہی ہے۔

اسی اثناء میں دیور یونیورسٹی جانے کے لیے تیار ہوگیا تھا۔ اُس نے فوری اپنے شوہر اور دیور کا ناشتہ بنایا۔ شوہر ناشتہ کرکے آفس گئے تو نو بج گئے تھے۔ جلدی سے میز سے برتن سمیٹ کر ساس سسر کے لیے ناشتہ بنایا۔ جب تک ساس سسر نے ناشتہ کیا۔ اس نے کچن صاف کردیا۔ ساس سسر کے ناشتہ کے برتن سمیٹ رہی تھی کہ ماسی آگئی۔ اس کے ساتھ لگ کر گھر کی صفائی کرانے لگی۔ جب ماسی کو رخصت کیا تو گیارہ بج گئے تھے۔ کھانا پکانے کی تیاری کررہی تھی کہ ساس کی آواز آئی آج کچھ اہتمام کرلیں۔ مہمان آرہے ہیں۔ اس نے کھانا پکایا۔ اور جلدی جلدی روٹیاں بنانے لگی کیونکہ ایک بج رہا تھا اور اس کے بچے بھی اسکول سے آنے والے تھے۔

 بھوک بھوک کہتے بچے گھر میں شور مچاتے ہوئے داخل ہوئے تو اُس نے جلدی جلدی ان کو منہ ہاتھ دھلواکر اور کپڑے بدلواکر کھانا کھلایا۔ چھوٹی نند بھی کالج سے آگئی اور دیور بھی کام سے واپس آگیا۔ وہ پھر ان سب کے لیے روٹیاں بنانے لگی جب سب کھا کراپنے کمروں میں آرام کرنے چلے گئے تو اُس نے گھڑی پر نظر ڈالی تو تین بج چکے تھے اُسےایک دم بھوک کا احساس ہوا۔ میز پر رکھا ہاٹ پاٹ دیکھا تو آدھی روٹی بھی نہیں تھی۔ وہ میز سے برتن اُٹھا کر رہی تھی تو اس کا شوہر آفس سے آگیا شوہر نے اس کو دیکھتے ہی کہا، بڑی بھوک لگی ہے جلدی سے کھانا نکالو۔

وہ اپنے شوہر کے لیے جلدی جلدی روٹیاں بنانے لگی جب اس نے اپنے شوہر کے لیے کھانا لگایا تو شام کے چار بج رہے تھے۔ شوہر نے کہا آجاؤ تم بھی کھانا کھالو۔ اس نے حیرت سے شوہر کی طرف دیکھا۔ اس کو خیال آیا کہ صبح سے اس نے کچھ نہیں کھایا۔ وہ اپنے شوہر کے ساتھ کھانا کھانے بیٹھ گئی اس نے روٹی کا پہلا نوالہ منہ میں ڈالا تو اس کی آنکھ سے آنسو جاری ہو گئے۔

اس کے شوہر نے پوچھا کہ تم رورہی ہو، کیوں؟ اس نے سوچا ان سے کیا کہوں، ان کو کیا معلوم سسرال میں کتنی محنت کے بعد روٹی کا نوالہ ملتا ہے، جس کو لوگ مفت کی روٹی کہتے ہیں اس نے اپنے شوہر سے کہا، کچھ نہیں۔ شوہر نے اُس کی طرف دیکھتے ہوئےکہا عورت بھی کتنی بے وقوف ہوتی ہے بغیر کسی وجہ کے رونے لگتی ہے۔ (زویا حسن)