• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دل کو چھو لینے والی نظم بیٹیوں کے دل کی آواز

بابا جی!

آپ کا خطّ ملا

یوں لگا میرے گھر سے کوئی آ گیا

آپ کا خط میرے ہاتھ میں ہے

ایسا لگ رہا ہے آپ میرا ہاتھ

پکڑے ہوئے ہیں

چھوڑنا نہیں

دو دن سے یہاں بارشیں ہو رہی ہیں

اور میں گھر میں بیٹھی ہوئی ہوں

اپنے گھر میں بارش میں کتنا نہاتی تھی

امّاں ڈانٹتی تھی، مجھے اور مزہ آتا تھا

آسمان کی طرف دیکھ کے کہتی تھی

الله صاحب، اور بارش بھیجو

یاد ہے ابّا جی، ایک دن بہت بارش ہو رہی تھی

آپ کو مجھے اسکول چھوڑنا تھا

کہ سائیکل کے پہیے کی ہوا نکل گئی

وہ میں نے نکالی تھی

اسکول نہیں گئی اور بارش میں نہاتی رہی

بھائی ہمیشہ مجھ سے لڑ کر

مجھے گھر میں لے جاتا تھا

اور میں روتی ہوئی آ کر آپ سے لپٹ جایا کرتی تھی

بابا جی

یہاں کوئی مجھ سے لڑتا ہی نہیں

بہت خاموشی ہے

میں تو آپ کی لاڈلی تھی

پھر مجھے اتنی دور کیوں بھیج دیا

امّاں کیسی ہے، کس کو ڈانٹتی ہے

چڑیوں سے باتیں کون کرتا ہے

بکریوں کو چارا کون ڈالتا ہے

تمہاری پگڑی میں کلف کون لگاتا ہے

بہت کچھ لکھنا چاہتی ہوں بابو جی

لکھا نہیں جا رہا

تم سب بہت یاد آتے ہو

بابا جی، ناراض ہو؟

اگر نہیں ہو تو اپنی لاڈلی کو خطّ کیوں نہیں لکھا

بہت ساری باتیں تمہیں بتانی ہیں

امّاں سے کہنا اپنی ہری چادر تلاش کرنا چھوڑ دے

وہ میں نے چپکے سے اپنے بکسے میں رکھ لی

جب امّاں کی یاد آتی ہے، میں وہ چادر سونگھ لیتی ہوں

اور یوں لگتا ہے میں امّاں کی بانہوں میں ہوں

تم نے جو قلم بھائی کے پاس ہونے پہ دیا تھا وہ بھی میں لے آئی

اب بھائی قلم ڈھونڈے گا تو مجھے یاد کرے گا

تمہاری ٹوٹی ہوئی عینک بھی اپنے ساتھ لے آئی ہوں

سارا دن شیشے جوڑنے کی کوشش کرتی رہتی ہوں

اور تم سامنے بیٹھے رہتے ہو

بابا جی انہی باتوں سے تو میرا دن کٹ جاتا ہے

بابا جی کل رات میں نے اک خواب دیکھا

تم، امّاں، بھائی صحن میں بیٹھے بہت خوش نظر آئے

مگر میں اداس ہو گئی

آم کے پیڑ پہ جو میرا جھولا تھا ناں وہ کہیں نظر نہیں آیا

تم لوگوں نے ایسا کیوں کیا، اسے ڈلوا دو

میں اپنے اسی جھولے پر بیٹھی ہوں

اور کچے آم توڑ کے کھانے لگتی ہوں

تم نے اچھا نہیں کیا بابا جی

تمہاری لاڈلی