• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سمیرا انور

ثناء اسکول سے آکر اپنے کمرے میں اُداس بیٹھی تھی۔ اس کی امی کمرے میں داخل ہوئیں اور پوچھا، بیٹا! تم نےا سکول سے آکر کھانا نہیں کھایا اور ہوم ورک بھی نہیں کیا۔ تمہاری طبیعت تو ٹھیک ہے۔‘‘

جی امی لیکن آج جو میں نے دیکھا اس سے مجھے بہت دکھ ہوا ہے۔ ہمارے ارد گرد کچھ ایسے بھی لوگ ہوتے ہیں جنہیں ہماری مدد کی ضرورت ہوتی ہے لیکن وہ زبان سے کچھ نہیں کہتے۔‘‘

یہ کہہ کرثنا بے اختیار رو پڑی۔ وہ بہت حساس اور رحم دل تھی۔ اس کی امی پریشان ہوکر کہنے لگیں۔ بیٹا! کیا بات ہے مجھے بتاؤ۔ امی، ہمارے دوسرے سیکشن کی ایک لڑکی فضیلہ ہے، اس کو آج ٹیچر نے کلاس سے نکال دیا کیونکہ اس کے پاس مطلوبہ کتاب نہیں تھی وہ روزانہ یہی کہتی تھی کہ میری کتاب گھر رہ گئی ہے، کل لے کر آؤں گی لیکن درحقیقت اس کے پاس کتاب نہیں ہے، جو ہیں وہ بھی خستہ حالت میں ہیں۔ 

وہ روزانہ لڑکیوں سے کتاب مانگ کر سارا کام کرتی ہے لیکن آج جب کتابیں چیک کی گئیں تو اس کے پاس سے دو خستہ حال کتابو ں کے کچھ نہ تھا، جس پر ٹیچرنے اس کو کلاس سے نکال دیا۔ اس کے ساتھ بیٹھنے ولی لڑکی نے بتایا کہ وہ بہت غریب ہے شام کو چھوٹے بچوں کو ٹیوشن پڑھاتی ہے، تاکہ گھر کا گزارہ ہوسکے اس کے والد کا بھی انتقال ہوگیا ہے، بیمار ماں ہے۔

امی مجھے یہ سب سن کر بہت افسوس ہوا کہ ہم اپنی زندگی میں کتنے مگن رہتے ہیں کہ ہمیں دوسروں کے حالات کاپتہ تک نہیں ہوتا۔

ثناء کی امی نے کہا۔ بیٹا! ہم سے جتنا ہوسکا ہم اس کی ضرور مدد کریں گے۔ اس کو کتابیں بھی لے کردیں گے، آپ پریشان نہ ہو بلکہ تمام دوستیں مل کر اپنی پرنسپل صاحبہ کے پاس جاؤ اور انہیں بتاؤ کہ وہ مستقل اس کے لیے وظیفے کا انتظام کریں۔ ثنانے اپنی امی جان کودیکھا اور مسکرادی۔

اگلے دن اس نے تمام دوستوں کا اکٹھا کیا اور انہیں ترغیب دی کہ ہم سب مل کر ایسی لڑکیوں کی مدد کریں جو پڑھنا چاہتی ہیں لیکن حالات ان کا ساتھ نہیں دیتے سب اس کی بات سے متفق ہوگئیں اور اپنے اپنے حصے کی چیزیں بانٹ لیں جو وہ اپنی جیب خرچ سے خرید کر دیا کریں گی۔

اس کے بعد وہ پرنسپل صاحبہ کے پاس گئیں، اُنہیں اپنے پروگرام سے آگاہ کیا۔ پرنسپل یہ سن کر بہت خوش ہوئیں، انہوں نے باقاعدہ ایک فلاحی تنظیم بنائی اور ثناء کو اس کاصدر منتخب کردیا۔ اس نے بہت خوشی سے یہ ذمہ داری اور پوری کرنے کا وعدہ کیا، پھر وہ ا یمانداری سے ہر ہفتے تمام ممبران کی موجودگی میں ایک مستحق لڑکی کووظیفہ دیا جاتا، ایسا کرکے وہ نہ صرف اپنے ضمیر کے سامنے مطمئن ہوئی بلکہ اسے ذہنی سکون بھی مل گیا۔

بچو! آپ بھی اپنے اردگرد ایسے بچوں کو دیکھیں جو پڑھ لکھ کر کچھ بننا چاہتے ہیں لیکن غربت ان کے آڑے آ جاتی ہے۔ ہوسکتا ہے آپ کی وجہ سے کسی کی زندگی بدل جائے، کوشش کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ آپ بھی ایک بار کوشش ضرور کریں۔