اسلام آباد (صالح ظافر) امریکی سفیر کا دورۂ طورخم، عمران کی مزاری کی تنقید پر حمایت ، سفارتی ذرائع کا کہنا ہے کہ شیریں مزاری نے اس دورے کے چار دن بعد انتہائی ناگوار انداز میں تبصرہ کیا۔ تفصیلات کے مطابق عمران خان اور پاکستان تحریک انصاف نے امریکی سفیر ڈونلڈ بلوم کے دورۂ طورخم اور کے پی کے کیخلاف سابق وفاقی وزیر شیریں مزاری کے ریمارکس کے بارے میں کسی بھی قسم کے رد عمل دینے سے دور رہ کر تنقید کی تائید کی ہے۔ دونوں علاقے پی ٹی آئی حکومت کے کنٹرول میں ہیں۔ باخبر سفارتی ذرائع نے دی نیوز کو بتایا کہ مزاری نے اس دورے کے چار دن بعد انتہائی ناگوار انداز میں تبصرہ کیا۔ذرائع نے یاد دلایا کہ غیر ملکی معززین کے طورخم کے اس طرح کے دورے کئی دہائیوں پرانی روایت ہے جو معمول کے مطابق کیے جاتے ہیں اور اس میں کوئی نئی بات نہیں۔ انہوں نے یاد دلایا کہ ایوب خان کے دور میں برطانوی ملکہ ایلزبتھ اور ڈیوک آف ایڈنبرا نے 60 کی دہائی کے اوائل میں اس علاقے کا دورہ کیا جہاں اس وقت کے سابق گورنر مغربی پاکستان نواب کالاباغ نے میزبانی کے فرائض انجام دیے اور اس دورے کا انعقاد کیا۔ خیال کیا جاتا ہے کہ مزاری نے پی ٹی آئی مخالفین کی جانب سے سیاسی تنقید کے بعد ردعمل جاری کیا ہے اور یہ ان کی پارٹی کی اعلیٰ قیادت کی رضامندی سے جاری کیا گیا ہے۔ذرائع نے یاد دلایا کہ مزاری کے تبصرے غیر سائنسی ہیں کیونکہ سینکڑوں امریکی سیٹلائٹ دیگر ممالک کی طرح مدار میں پرواز کر رہے ہیں جو انچ وار حرکت کی تصاویر لے سکتے ہیں۔ ایک سفارت کار ہیلی کاپٹر کے ذریعے علاقے کی نقشہ سازی کیوں اور کیسے کر سکتا ہے۔ اتفاق سے ہیلی کاپٹر پاکستان کا ہے اور اسے پاکستانی پائلٹ اڑا رہے تھے۔ مزاری کی جانب سے شیئر کی گئی تصاویر میں بلوم کو ایک ہیلی کاپٹر میں طورخم بارڈر جاتے ہوئے اور سیکورٹی حکام کی جانب سے انہیں بریفنگ دیتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ اسی روز بعد میں سابق وزیر انسانی حقوق نے امریکی ایلچی کی کے پی کے کے وزیر صحت تیمور خان جھگڑا کے ساتھ یونائیٹڈ اسٹیٹس ایجنسی فار انٹرنیشنل ڈویلپمنٹ کی جانب سے صوبائی حکومت کو 36 گاڑیاں دینے کی تقریب میں شیئر کی جانے والی تصاویر پر ردعمل دیا۔ مزاری کا کہنا تھا کہ تصویریں شیئر کرنے والوں کو یہ احساس نہیں کہ اس طرح کے حکومت تا حکومت سماجی اقتصادی پروگرام معاہدوں کے ذریعے کیے جاتے ہیں اور یہ ’اصول‘ ہے۔ تاہم انہوں نے اس بات کا اعادہ کیا کہ ایک ایلچی کا ’حساس علاقوں‘ میں جانا اور اسے رسائی فراہم کرنا’سیکورٹی کا مسئلہ‘ ہے۔ مزاری نے سوال اٹھایا تو کیا اب امریکہ کے ساتھ کوئی سیکورٹی معاہدہ موجود ہے؟ اگر ہے تو ہمیں معلوم ہونا چاہئے۔ ذرائع نے یاد دلایا کہ امریکی ایلچی نے جس علاقے کا دورہ کیا ہے وہ ہرگز ’نو مین لینڈ‘ (بے نامی اراضی یا متنازع علاقہ) نہیں ہے اور اس میں کوئی حساسیت شامل نہیں ہے۔ علاقے کھلے ہیں اور غیر ملکی مہمان پہاڑی کی تھوڑی بلندی پر بیٹھ کر تاریخی درہ خیبر کا نظارہ کرتے ہیں جو اس مقصد کے لیے مخصوص ہے۔ دریں اثناء امریکی سفارتخانے نے شیریں مزاری کے مشاہدات کو نظر انداز کر دیا۔ سفارت خانے کے ترجمان نک ہیرش نے دی نیوز کے سوال پر کہا کہ ہم کوئی تبصرہ نہیں کریں گے، ہمارے خیال میں ان کے تبصرے خود بولتے ہیں۔ دفتر خارجہ اور کے پی کے حکومت دونوں مزاری کے ریمارکس پر خاموش ہیں۔ سیکرٹری خارجہ سہیل محمود جو اگلے ماہ ریٹائر ہو رہے ہیں اور دفتر خارجہ کے ترجمان عاصم افتخار احمد نے پوچھے گئے سوال کا کوئی جواب نہ دیتے ہوئے سوال کو ٹال دیا۔ ذرائع نے اس بات کی نشاندہی کی کہ امریکی سفیر نے دفتر خارجہ کی پیشگی اطلاع پر کے پی کے میں دونوں مقامات کا دورہ کیا۔