اسلام آباد(نمائندہ جنگ) عدالت عظمیٰ نے قتل کے مقدمہ میں ملوث ایک پولیس اہلکار کی متعلقہ سیشن کورٹ سے بریت کے بعد محکمہ پولیس میں بحالی کے حوالے سے ایک مقدمہ کا فیصلہ جاری کرتے ہوئے قراردیاہے کہ کسی فوجداری مقدمہ میں ملوث کوئی سرکاری ملازم شک کا فائدہ حاصل کرکے یا کسی ٹیکنیکل وجہ سے عدالت سے بری بھی ہوجاتا ہے تو بھی مجاز اتھارٹی کیلئے اس کیخلاف محکمانہ کارروائی شروع کرنے کے راستے میں کوئی رکاوٹ یا پابندی نہیں ہے جبکہ ایسا ملازم کسی بھی صورت میں محکمانہ کارروائی یا اسکے نتائج سے بھاگ نہیں سکتا ،منظم فورسز سے تعلق رکھنے والے ملازم کو انتہائی باوقار،دیانتدار ،ناقابل موخذہ ،بے داغ کردار اور بے داغ ماضی کا حامل ہونا چاہئے، جسٹس محمد علی مظہر نے پنجاب پولیس کے ایک ملازم کی سروس ٹریبونل کے فیصلے کیخلاف جاری کئے گئے سپریم کورٹ میں دائر اپیل خارج کرنے سے متعلق 11 صفحات پرمشتمل فیصلہ قلمبند کیا ہے۔چیف جسٹس کی سربراہی میں قائم تین رکنی بنچ نے کیس کی سماعت مکمل ہونے کے بعد اپیل خارج کرتے ہوئے معاملہ پنجاب پولیس کو واپس بھیجتے ہوئے ہدایت کی ہے کہ اس بات کا شفافیت کے ساتھ جائزہ لیا جائے کہ کیا عدالت نے ملزم کو بے گناہ ہونے کی بناء پر مکمل طور پر بری کیا ہے یا شک کا فائدہ دیتے ہوئے یا کسی ٹیکنیکل بنیاد پر بری کیا ہے؟ عدالت نے قرار دیا ہے کہ اس بات کا بھی جائزہ لیا جائے کہ اپیل گزار کی بحالی کہیں محکمہ پولیس اور اس پر عوام کے اعتماد کیلئے خطرہ ہی نہ بن جائے ؟عدالت نے قرار دیا ہے کہ پولیس فورس ایک منظم ادارہ ہے جسکے کندھوں پر امن وامان قائم رکھنے کی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے ،مجرمانہ ماضی کے حامل شخص کو اسکی سابقہ پوزیشن پر بحال کرنا کچھ موزوں اقدام نہیں ہوگا،ایک پولیس ملازم کو پولیس آرڈر 2002کے تحت جرائم کی سرکوبی ، جرم کاسراغ لگانے اور امن عامہ برقرار رکھنے کے حوالے سے مکمل طور پر پیشہ ورانہ اہلیت کا حامل اور قابل مواخذہ ہونا چاہئے ۔