ملتان میں ایک اور بڑے ضمنی انتخاب کی بساط بچھ چکی ہے ، ابھی صوبائی حلقہ 217 کے انتخابی معرکہ کے کہانیاں جاری تھیں کہ قومی حلقہ 157 کا ضمنی انتخاب سر پر آگیا ہے، یہ ویسے تو ایک عام ضمنی انتخاب ہوتا، مگر اس میں ملتان کے دو بڑے سیاسی خاندانوں کی نئی نسل کے مقابل آنے سے اس کی اہمیت میں حد درجہ اضافہ ہو گیا ہے، 2018 ء کے انتخابات میں یوسف رضا گیلانی کے بیٹے علی موسی گیلانی نے اس حلقہ سے تقریبا 70 ہزار ووٹ حاصل کیے تھے ، جبکہ شاہ محمود قریشی کے بیٹے زین قریشی نے جو پہلی بار سیاست میں وارد ہوئے تھے اور اپنا پہلا الیکشن لڑ رہے تھے، 77 ہزار ووٹ لے کر یہ نشست جیت لی تھی ،ایک تیسرے امیدوار مسلم لیگ ن کے عبدالغفار ڈوگر تھے،جنہیں تقریبا 62 ہزار ووٹ ملے تھے، اس طرح گویا اس حلقہ میں سوا دو لاکھ ووٹ کاسٹ ہوئے تھے، جو ووٹنگ کی عمومی شرح کے حساب سے بہت زیادہ خیال کیے جاتے ہیں۔
اس بار جب یہ نشست زین قریشی کے رکن صوبائی اسمبلی بننے کی وجہ سے خالی ہوئی، تو خیال یہی تھا کہ تحریک انصاف کی طرف سے کوئی نیا امیدوار سامنے لایا جائے گا، یہ توقع کسی کو بھی نہیں تھی کہ یہ امیدوار کوئی اور نہیں، بلکہ شاہ محمود قریشی کی بیٹی مہربانو قریشی ہوگی، جن کا اس سے پہلے نہ تو کبھی سیاست میں ذکر ہوا اور نہ ہی وہ کبھی کسی سیاسی اجتماع میں دیکھی گئیں، حتی کہ پی ٹی آئی کے ساڑھے تین سالہ دور اقتدار میں بھی ان کا ذکر کہیں نہیں آیا اور نہ ہی وہ کسی سیاسی اجتماع میں نظر آئیں۔
اب اچانک انہیں میدان میں لاکر شاہ محمود قریشی نے سب کو حیران کر دیا ہے، شروع میں اس حوالے سے تنقید بھی ہوئی کہ تحریک انصاف اور عمران خان کے اس بیانیہ کی نفی ہو رہی ہے کہ وہ موروثی سیاست کے حق میں نہیں ہیں، اس حوالے سے عمران خان کے کئی بیانات بھی میڈیا پر سامنے آتے رہے، جو انہوں نے مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی موروثی سیاست کے خلاف دئیے۔
ایک عام خیال یہ تھا کہ شاید شاہ محمود قریشی نے اپنی بیٹی کو ٹکٹ عمران خان کی مرضی کے بغیر دیا ہے، مگر شاہ محمود قریشی نے اس کی تردید کرتے ہوئے واشگاف الفاظ میں کہا کہ مہربانو قریشی کو ٹکٹ عمران خان کی منظوری سے دیا گیا ہے، اور تحریک انصاف پوری طرح اس کی حمایت کرتی ہے، اب جبکہ اس حلقہ میں یوسف رضا گیلانی کے بیٹے علی موسی گیلانی اور شاہ محمود قریشی کی بیٹی مہربانو قریشی کے درمیان ون ٹوون مقابلے کی بنیاد پڑ چکی ہے، اگرچہ اس حلقہ سے آزاد اور دیگر چھوٹی جماعتوں کے امیدوار بھی میدان میں ہیں۔
تاہم مسلم لیگ ن کے امیدوار ملک عبدالغفار ڈوگر جن کے بارے میں کہا جا رہا تھا کہ اگر انہیں ٹکٹ نہ دیا گیا،تو وہ آزاد حیثیت سے الیکشن میں حصہ لے سکتے ہیں، کو ن لیگ نے وزیراعظم کا ایڈوائزر بنا کر پی ڈی ایم کے امیدوار علی موسیٰ گیلانی کے حق میں دستبرداری پر آمادہ کر لیا ہے ، اس طرح اس حلقہ میں بڑا جوڑ گیلانی اور قریشی خاندان کے درمیان ہے، ملتان کی یہ دو روایتی خاندان ماضی میں بھی ایک دوسرے کے انتخابی حریف رہے ہیں، سید یوسف رضا گیلانی اور شاہ محمود قریشی نے متعدد انتخابات ایک دوسرے کے مقابل لڑے ، 2018 کے انتخابات میں بھی اس حلقہ میں گیلانی اور قریشی خاندان کے درمیان ایک کڑا مقابلہ تھا ،جس میں زین قریشی کامیاب ہوئے۔
یہ حلقہ جو دیہی علاقوں پر بھی مشتمل ہے ،ان روحانی، سیاسی خانوادوں کی گرفت میں ہے، یہاں کا ووٹر ان دونوں خاندانوں سے باہر ووٹ دیتے ہوئے خاصہ محتاط ہو جاتا ہے ، شاہ محمود قریشی گروپ کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ اگر وہ اپنی بیٹی کو امیدوار نہ بناتے اور کسی اور کو ٹکٹ دیتے ،جس کا تعلق قریشی خاندان سے نہ ہوتا، تو اس نشست پر تحریک انصاف کو شکست ہو سکتی تھی، یہ وہ بات ہے جو پی ٹی آئی کے کارکن کو ہضم نہیں ہو رہی، ان کا خیال ہے کہ ووٹ اب عمران خان کے نام پر پڑتا ہے، اس لئے چاہے امیدوار جو کوئی بھی ہوتا ، یہ نشست پی ٹی آئی نے ہی جیتنی تھی۔
بہرحال اب زمینی حقائق یہ ہیں کہ امیدواروں کے کاغذات نامزدگی جمع ہوچکے ہیں اور الیکشن کا میدان سج چکا ہے، مہربانو قریشی جو اپنی فیملی کے ساتھ کراچی میں مقیم تھیں، الیکشن میں حصہ لینے کے لئے ملتان آ چکی ہیں، اب الیکشن مہم کا مرحلہ شروع ہو گا اور یہ دونوں خاندان اپنا پورا اثرورسوخ استعمال کریں گے، مہربانو قریشی کو تحریک انصاف کی طرف سے امیدوار بنا کر شاہ محمود قریشی نے ایک جرآت مندانہ فیصلہ کیا ہے، یہ بھی کہا جارہا ہے کہ مہربانو قریشی کی الیکشن مہم کے سلسلہ میں عمران خان جلسہ کرنے ملتان بھی آئیں گے، یہ ایک بہت بڑی انتخابی سرگرمی ہوگی ، جس سے پی ٹی آئی کا ووٹر متحرک ہو جائے گا، اس وقت تحریک انصاف کے لیے عوام میں جو ہمدردیاں موجود ہیں ، وہ اس ضمنی انتخاب میں اہم کردار ادا کر سکتی ہیں ،تاہم دوسری طرف علی موسیٰ گیلانی ایک مضبوط امیدوار ہیں۔
ان کا حلقہ کے ووٹر سے ذاتی طور پر رابطہ ہے، وہ ان کی ہر خوشی، غمی میں شریک ہوتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ انہوں نے 2018ء کے انتخابات میں 70 ہزار ووٹ لیے تھے، جبکہ ان انتخابات میں پیپلز پارٹی کے لیے اتنی عوامی مقبولیت موجود نہیں تھی ، اس بار بھی وہ سب سے پہلے انتخابی مہم میں متحرک ہونے ہیں ،ابھی الیکشن کا اعلان نہیں ہوا تھا کہ انہوں نے اپنی انتخابی مہم شروع کر دی تھی۔