وفاقی دارالحکومت کے سیاسی اور سرکاری حلقوں میں ’’کپتان‘‘ کے اسٹیبلشمنٹ سے تعلقات کو خوشگوار بنانے کے معاملہ میں ایک دو رکنی سیاسی ٹیم کی سرگرمیوں کے بارے میں کئی خبریں گردش کر رہی ہیں۔ اس دو رکنی ٹیم میں کے پی کے سے تعلق رکھنے والے سابق وزیر اعلیٰ اور پنجاب کے وزیر اعلیٰ شامل ہیں۔
کپتان دور میں وزیر دفاع رہنے کی وجہ سے سابق وزیر اعلیٰ کے پی کے ’’مقتدر حلقوں‘‘ میں کافی اثر و رسوخ رکھتے ہیں اور تحریک انصاف کی طرف سے ’’اسٹیبلشمنٹ‘‘ کے ساتھ حالیہ مذاکرات میں بھی وہ نمائندگی کے فرائض ادا کرتے رہے ہیں جبکہ وزیر اعلیٰ پنجاب تو مشرف دور سے ہی ’’طاقتور حلقوں‘‘ کو اپنی وفاداری کا یقین دلانے کے علاوہ ان کے احکامات پر عملدرآمد بھی کرتے ہیں۔
یوں دونوں کی جوڑی ٹوٹے ہوئے بندھن کو جوڑنے میں مصروف دکھائی دے رہی ہے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب کو کپتان کی طرف سے صوبے میں وزیر اعلیٰ بنانے کے معاملہ میں بھی سابق وزیر اعلیٰ کے پی کے نے ’’گارنٹی‘‘ دی تھی۔
حکومت اور اپوزیشن کے درمیان درپردہ مذاکرات؟
وفاقی دارالحکومت کے سیاسی و سرکاری حلقوں میں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ’’درپردہ مذاکرات‘‘ کے حوالہ سے کئی کہانیاں گردش کر رہی ہیں۔ وزیراعظم کی طرف سے ’’قومی ڈائیلاگ‘‘ اور میثاق معیشت کی ایک بار پھر کی پیش کش کو بھی اس سلسلہ کی کڑی قرار دیا جا رہا ہے۔ حالیہ سیاسی کشیدگی اورتلخی کے ماحول میں ’’طاقتور حلقوں‘‘ میں یہ محسوس کیا جا رہا ہے کہ داخلی اور خارجی محاذ پر پیش آنے والی مشکلات نے ملک کو ایک سنگین صورتحال میں مبتلا کر رکھا ہے۔
یہ بھی سننے میں آیا ہے کہ معاشی بحران کو دور کرنے کے معاملات میں ’’مقتدر ادارے‘‘ کے سربراہ کے بیرونی ممالک کے سربراہوں سے براہ راست رابطوں نےبھی فریقین کے درمیان مذکورہ مذاکرات کی راہ ہموار کردی ہے۔ دونوں طرف سے حکومت اور اپوزیشن کی بی ٹیم اس صورت حال میں اپنا کردار ادا کررہی ہے؟۔
بیوروکریسی کے متنازع کردار
صوبائی دارالحکومت کے سیاسی اور سرکاری حلقوں میں بیورو کریسی کے بعض ’’متنازعہ کرداروں‘‘ کے صوبے کی نئی حکومت سے ناراضگی دور ہونے کے حوالہ سے کئی خبریں گردش کر رہی ہیں۔ صوبے میں پولیس کے سربراہ کو حکمران خاندان کے ’’جانشین‘‘ نے مکمل طور پر کنٹرول میں لے لیا ہے جبکہ ایک زیر عتاب آنے والے اعلیٰ بیوروکریٹ کو کسی بڑی سفارش پر معافی کا پروانہ مل گیا ہے۔
شریف خاندان کے دور میں صوبائی دارالحکومت کے کلیدی عہدہ پر رہنے والے ایک اعلیٰ سرکاری افسر کو خدشہ تھا کہ صوبے کے نئے حکمرانوں کی شدید ناراضگی اس کو سخت نقصان سے دو چار کرسکتی ہے تو اس نے ’’مقتدر حلقوں‘‘ سے قربت رکھنے والی ایک شخصیت کو درمیان میں ڈال کر اپنی صفائی پیش کرکے ’’شمس ٹو‘‘ کو راضی کرلیا ہے۔ مذکورہ افسر ’’پلاسٹک سرجری بیوروکریٹ‘‘ کے طور پر افسر شاہی کے حلقوں میں جانے جاتے ہیں۔