• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سندھ میں بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے کے انعقاد پر بے یقینی کے بادل منڈلارہے ہیں جماعت اسلامی نے دوسرے مرحلے کے جلد انعقاد کے لیے عدالت سے رجوع کررکھا ہے۔ گرچہ الیکشن کمیشن نے انتخابات کے لیے 28 اگست کی تاریخ دے رکھی ہے تاہم بارش اور محرم الحرام کے سبب امیدواروں کی مہم میں وہ جوش وخروش تھا وہ انتخابات موخر ہونے سے قبل پایا جاتا تھاوہ اب نہیں ہے۔

اب ایک بار پھر امیدوارمیدان میں کود پڑے ہیں اور گھرگھر جاکہ انتخابی مہم چلارہے ہیں حکومتوں میں رہنے والی جماعتوں سے عوام گزشتہ 14 سال کا حساب بھی مانگ رہی ہےجبکہ کراچی کے لیے اعلان کردہ 11 سو ارب روپے کی بابت بھی سوال اٹھائے جارہے ہیں ان جماعتوں کو انتخابی مہم میں دشواری کا سامنا کرنا پڑرہا ہے دوسرے مرحلے کے انتخاب میں پی پی پی کے سجاول سے سو کے قریب امیدوار بلامقابلہ منتخب ہوچکے ہیں جبکہ دادو،سہیون، جام شورو، حیدرآباد میں انہیں حریف جماعتوں کے مقابلے کا سامنا ہے جبکہ سندھ حکومت کی کارکردگی کے سبب کراچی میں پی پی پی کو کامیابی کی کچھ زیادہ امید نہیں تاہم کیماڑی، ضلع غربی، جنوبی اور ملیر کے بعض علاقوں میں انہیں سبقت حاصل ہے۔ 

ضلع سینٹرل ، ایسٹ، کورنگی ایم کیو ایم ماضی کے نتائج کی بنیاد پر سبقت لیے ہوئے ہے تاہم پی ٹی آئی، تحریک لبیک ، جماعت اسلامی کے امیدواروںنے اس کی جیت پر بھی سوالیہ نشان کھڑا کررکھا ہے جبکہ ایم کیو ایم کے سابق رہنما ڈاکٹرفاروق ستار کی جانب سے کراچی کے 246 یونین کونسل میں سے 75 اور حیدرآباد میں30 یونین کونسلوں پر امیدوار آمنے سامنے لانے پر ایم کیو ایم کو ووٹوں کی تقسیم کا خدشہ ہے ضلع غربی اورکیماڑی، اس وقت اوپن ہے یہ اضلاع سرپرائز کرسکتے ہیں یہاں پی پی پی ، جے یو آئی، جماعت اسلامی، تحریک لبیک، ایم کیو ایم، اے این پی اورپی ایس پی پورے آب وتاب کے ساتھ موجود ہیں ضلع ساؤتھ میں پی ٹی آئی، جماعت اسلامی اورتحریک لبیک کا پلڑا بھاری نظرآرہا ہے۔

تاہم پیپلزپارٹی بھی لیاری کی حدتک حمایت لیے ہوئے ہیں۔ ضلع ایسٹ میں پی ٹی آئی، پی پی پی، جماعت اسلامی، ایم کیو ایم، تحریک لبیک،ضلع کورنگی میں، ایم کیو ایم، تحریک لبیک ، پی ٹی آئی ، مہاجرقومی موومنٹ اور ضلع ملیر میں ایم کیو ایم، پی پی پی ، مہاجر قومی موومنٹ جے یو آئی اور تحریک لبیک مزاحم ہوں گی تاہم یہ حقیقت ہے کہ کراچی کا قلعہ کوئی بھی جماعت اکیلے سر نہیں کرپائے گی پی پی پی کراچی ڈویژن کے صدر اور صوبائی صدر نثارکھوڑو کراچی کا معرکہ سر کرنے کے کوششوں میں مصروف ہےتاہم بارش اور پی پی پی کی حکومت کی 14 سالہ کارکردگی ان کی محنت کی راہ میں حائل ہے پی پی پی کراچی کے دو اضلاع سمیت اگر کچھ نشستوں پر کامیاب ہوتی ہے تو صوبائی صدر نثارکھوڑو، صوبائی جنرل سیکریٹری وقار مہدی اور کراچی ڈویژن کے صدر سعید غنی کی محنت کا ثمر ہوگا نثارکھوڑو پارٹی چیئرمین بلاول بھٹو سے ملاقات کے دوران پہلے مرحلے میں بھرپور کامیابی پر داد سمیٹ چکے ہیں اب دیکھنا یہ ہے کہ دوسرے اور اہم مرحلے کے بعد کے نتائج آنے پر جوڑتوڑ کی اہم سیاست کیا رنگ لاتی ہے اور سارا دارومدار نتائج کے بعد جوڑتوڑ کی سیاست پر ہی ہوگا ادھر این اے 245 میں پولنگ 21 اگست کو ہوگی جس کی تیاریاں مکمل کرلی گئی ہے۔ 

اس ضمنی انتخاب اور بلدیاتی انتخاب کے دوسرے مرحلے کی مہم چلانے کے لیے پی ٹی آئی کے قائد عمران خان 19 اگست کو کراچی جبکہ 20 اگست کو حیدرآباد میں جلسہ عام سے خطاب کریں گےان کی مہم سے پی ٹی آئی کی حمایت میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ ان کا یہ جلسہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے این اے 245 پر ایم کیو ایم کے امیدوار معیدانور کے مقابلے میں پی پی پی اور جے یو آئی اپنا امیدوار دستبردار کرچکی ہے جبکہ انہیں اے این پی کی حمایت بھی حاصل ہے تاہم ان تمام جماعتوں کاجنہوں نے ایم کیو ایم کے حق میں اپنا امیدوار دستبردار کرایا ہے یا جنہوں نے ایم کیو ایم کی حمایت کی ہے اس نشست پر اثرورسوخ نہیں ہے۔

ایم کیوایم کے لیے اس نشست پر سب سے بڑا خطرہ ڈاکٹر فاروق ستار ہے جو ایم کیو ایم کا بڑا ووٹ تقسیم کرسکتے ہیں جس کے بعد توقع کی جارہی ہے کہ یہ نشست تحریک لبیک یا پی ٹی آئی کے ہاتھ لگ سکتی ہے یہ نشست پی ٹی آئی کے رکن صوبائی اسمبلی ڈاکٹر عامر لیاقت حسین کے انتقال کے سبب خالی قرار پائی تھی ادھر پی ٹی آئی کے ارکان کے استعفیٰ کی منظوری کے بعد کراچی سے پی ٹی آئی کی تین نشستیں خالی قرار پائی ہے ان نشستوں کے لیے کاغذات نامزدگی حاصل کرنے کا سلسلہ جاری ہے ان تینوں نشستوں پر جو ملیر، کورنگی اورلیاری کے علاقے میں ہیں پی ٹی آئی کے قائد عمران خان کے لیے کاغذات نامزدگی حاصل کرلیے گئے ہیں۔

ان نشستوں پر ستمبر میں انتخاب ہوگا اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ ضمنی انتخاب کے انعقاد کی وجہ سے سندھ کا سیاسی ماحول گرم رہے گا ادھر ملک بھر کی طرح کراچی میں بھی یوم آزادی جو ش وخروش سے منایا گیا مزارقائد پر گارڈ ز کی تبدیلی کی پروقار تقریب منعقد ہوئی سیاسی ، مذہبی جماعتوں نے ریلیاں نکالی، بچوں، بوڑھوں اور نوجوانوں نے جشن آزادی کی تقریبات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا مزارقائد پر گفتگو کرتے ہوئے وزیراعلیٰ سندھ مرادعلی شاہ نے کہاکہ اس ملک کی ترقی کے لیے ہم سب کو محنت کرنا ہوگی۔ ایک سوال کے جواب میں سید مراد علی شاہ نے کہاکہ کراچی اصل میں قدرتی آبی گزرگاہوں اور برساتی نالوں کے ساتھ ایک منصوبہ بندی والا شہر تھا لیکن بدقسمتی سے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ تمام قدرتی آبی گزرگا ہیں ہاؤسنگ اسکیموں میں تبدیل ہوگئیں اور برساتی نالوں کے کنارے تجاوزات نظرآنے لگیں۔

یہی وہ بنیادی وجوہات تھیں جن کی وجہ سے بارش کے پانی کو ٹھکانے لگانا ایک چیلنج بن گیا۔ وزیراعلیٰ سندھ نے کہاکہ ان کی حکومت نے شہر کے نالوں کی بحالی کے لیے سخت محنت کی اور ان کی مناسب صفائی کی، ہم اب بھی نکاسی آب کے مسائل کو حل کرنے کے لیے کام کررہے ہیں ایک سوال کے جواب میں وزیراعلیٰ سندھ نے کہاکہ شدید بارشوں سے سندھ بھر میں سڑکوں کے نیٹ ورک کو نقصان پہنچا۔ 

ہم نے کراچی کی خستہ حال سڑکوں کی تعمیر نو کے لیے ایک ارب روپے مختص کیے ہیں اور سیوریج سسٹم کی مرمت کے لیے مزید فنڈز کا بندوبست کیا جارہا ہے۔ انہوں نے مزید کہاکہ پی ٹی آئی کے لاہور کے جلسے میں پاکستان کا جھنڈا اتارا گیا جس کی ہم بھرپورمذمت کرتے ہیں دوسری جانب کراچی کے شہریوں کی اذیت کم نہیں  ہوسکی۔ بارش اور بلدیاتی اداروں کی نااہلی کے باعث لیاری، لانڈھی، کورنگی، شاہ فیصل کالونی، ملیر، قائدآباد، گلستان جوہر، اسکیم33 ، گلشن اقبال، جمشیدٹاؤن، بلدیہ ٹاؤن، کیماڑی، شیرشاہ، ناظم آباد، نارتھ ناظم آباد، اورنگی ٹاؤن، نارتھ کراچی، نیوکراچی، سرجانی ٹاؤن، پی آئی بی کالونی، کھارادر، میٹھادر، رنچھوڑ لائن، گزدرآباد، محمودآباد، ایکسپریس وے، صدر اور گرومندر سمیت بیشترعلاقوں میں سیوریج اور برساتی پانی کے جمع رہنے سے سڑکیں جوہڑ کا منظر پیش کررہی ہیں، ٹوٹی سڑکوں پر چند منٹ کا سفرگھنٹوں میں تبدیل ہوگیا، سڑکوں پر گڑھوں میں گر کر موٹرسائیکل سوار حادثات کا شکار ہورہے ہیں، گڑھوں میں گاڑیاں پھنس کر بند ہوتی رہیں۔شدید بارشوں سے سندھ حکومت کے تمام دعوے ہی دھرے کے دھرے رہ گئے، اس پر متضادیہ کہ کے الیکٹرک نے بجلی کے بلوں میں اضافے کے ساتھ ساتھ لوڈشیڈنگ کے دورانیہ میں بھی اضافہ کردیا ہے جبکہ رات کو بھی لوڈشیڈنگ کا دورانیہ بڑھا دیا ہے۔

تجزیے اور تبصرے سے مزید
سیاست سے مزید