جنوبی پنجاب میں سیلاب کی تباہ کاریوں کے بعد جنم لینے والی المناک کہانیوں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذریعے سامنے آرہا ہے، مگر افسوس ناک امر یہ ہے کہ اتنے وسیع پیمانے پر تباہی کے باوجود وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی طرف سے انتہا درجہ کی کی بے حسی اور عدم توجہی کا مظاہرہ کیا جارہا ہے، ہزاروں ایکٹر پر فصلیں تباہ ہوگئی ہیں، ہزاروں چھوٹے بڑے جانور پانی کی نذر ہوگئے ہیں اور کئی انسانی جانیں سیلابی ریلے اور کیچڑ کے سیلاب میں بہہ کر زندگی سے محروم ہوچکی ہیں، جتنے بڑے پیمانے پر نقصان ہوا ہے، اتنے بڑے پیمانے پر امدادی کارروائیاں دیکھنے میں نہیں آرہیں ، پورا جنوبی پنجاب خاص طور پر ڈیرہ غازی خان ڈویژن اس وقت افسردگی کی لپیٹ میں ہے، کیونکہ تونسہ ،راجن پور،ڈیرہ غازی خان ،کوٹ ادو ،داجل ، فاضل پوراور دیگر شہروں سے تباہی کی داستانیں عوام کو افسردہ کررہی ہیں۔
وزیراعظم شہباز شریف اور وزیراعلیٰ چودھری پرویز الہی نے چند گھنٹوں کے لئے سیلابی علاقوں کا دورہ کیا اور اس کے بعد پلٹ کر نہیں دیکھا کہ یہاں عوام کے ساتھ کیا بیت رہی ہے ،کوہ سلیمان میں بارشوں کا سلسلہ تھم نہیں رہا، جس کی وجہ سے رودکوہیوں میں مسلسل سیلاب پیدا ہورہا ہے، میدانی علاقے کئی کئی فٹ پانی کی زد میں آچکے ہیں ،لوگ بے سروسامانی کے عالم میں اپنا سب کچھ لٹا کر کیچڑ اور دلدل میں بے یارومددگار بیٹھے ہیں، انتظامیہ کی طرف سے خیمہ بستیاں بھی اتنی بڑی تعداد میں آباد نہیں کی گئیں ، جتنی بڑی تعداد میں تباہی ہوئی ہے ،خوراک اور ادویات کی بھی شدید قلت ہے ،بیماریاں پھیلنے کا اندیشہ ہے ،جبکہ مال و اسباب بہہ جانے کی وجہ سے لوگوں کے تن پر کپڑے بھی نہیں ہیں ، بعض فلاحی تنظیمیں اپنے تئیں کوشش کرہی ہیں کہ ان سیلاب زدگان کو ریلیف پہنچا سکیں۔
جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق بھی امدادی سرگرمیوں کے لئے وہاں پہنچے اور انہوں نے متاثرہ علاقوں میں خیمے ، خوارک اور ادویات تقسیم کیں، لیکن تباہی کا پیمانہ اتنا وسیع ہے کہ حکومت کی ایک بڑی امداد سے ہی سیلاب زدگان کی کچھ مدد ہوسکتی ہے ،اگرچہ وزیراعظم شہباز شریف نے ملک بھر میں سیلاب زدگان کے لئے 37ارب روپے کے پیکج کا اعلان کیا ہے ،تاہم جنوبی پنجاب میں ابھی تک عوام کو ایسا کوئی ریلیف نہیں ملا ،جوان کی تکلیفوں کو کم کرسکے، نیشنل اور پراونشل ڈیزازسٹرنیجمنٹ اتھارٹیز بھی اس حوالے سے غیرفعال نظر آتے ہیں ، وسیب کے لوگوں نے جگہ جگہ مظاہرے کئے ہیں اور مرکزی اور صوبائی حکومتوں کے خلاف احتجاج کیا ہے ، ضرورت اس امرکی ہے کہ فوری طور پر اس سنگین مسئلہ کی طرف توجہ دی جائے اور جنوبی پنجاب کے سیلاب زدگان کی امداد کے لئے عملی اقداامات اٹھائے جائیں، جن میں فوری مالی امداد ،گھروں اور انفراسٹرکچر کی بحالی شامل ہیں۔
دوسری طرف جنوبی پنجاب کی دو بڑی اہم شخصیات سید یوسف رضا گیلانی اور شاہ محمود قریشی اس سیلابی صورتحال سے بے خبر این اے 157میں ضمنی انتخاب کے لئے الیکشن مہم چلانے میں اس طر ح محو ہیں کہ انہیں اتنی بھی فرصت نہیں مل سکی کہ وہ سیلاب زدہ علاقوں کا دورہ کرکے متاثرین کو تسلی کے دو حرف ہی دے آتے، خاص طورپر شاہ محمود قریشی جن کی جماعت پنجاب میں برسر اقتدار ہے، جنوبی پنجاب میں امداد کے لئے نہیں پہنچے اور اپنی صاحب زادی کی انتخابی مہم کے سلسلہ میں دن رات کوشا ں ہیں ،جہاں تک اس حلقہ کی صورتحال کا تعلق ہے ،تو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انتخابی مہم میں تیزی آتی جارہی ہے ، 8 ستمبر کو تحریک انصاف کے چئیرمین عمران خان کا اس سلسلہ میں یہاں ایک جلسہ بھی ہے، جبکہ سید یوسف رضا گیلانی کی کوشش ہے کہ آصفہ بھٹو زرداری کو اپنے بیٹے علی موسیٰ گیلانی کی انتخابی مہم کے سلسلہ میں جلسہ کے لئے ملتان بلایا جائے ، شنید ہے کہ آصفہ بھٹو ملتان آسکتی ہیں۔
اس طرح پیپلزپارٹی یہ الیکشن جیتنے کے لئے پورا زور لگارہی ہے ،ادھر مسلم لیگ ن نے علی موسیٰ گیلانی کی حمایت کا اعلان کردیا ہے اور مسلم لیگ ن کے رہنماسید یوسف رضا گیلانی سے ملاقاتیں بھی کررہے ہیں، تاہم مسلم لیگ ن کی طرف سے ابھی تک علی موسیٰ گیلانی کے لئے بھرپور انتخابی مہم چلانے کی سنجیدہ کوششیں سامنے نہیں آئیں ،اس حوالے سے ملتان میں کوئی بڑا جلسہ بھی نہیں ہوسکا ،جبکہ شاہ محمود قریشی اپنی بیٹی مہر بانو قریشی کی انتخابی مہم بڑے منظم طریقہ سے چلا رہے ہیں ، مہربانو قریشی نے خواتین شعبہ کا محاذ سنبھال رکھا ہے اور وہ خواتین کے اچھے خاصے بڑے اجتماعات کررہی ہیں، جبکہ شاہ محمود قریشی اور ان کے بیٹے زین قریشی حلقہ کے مختلف سیاسی گروپوں، برادریوں اور بااثر خاندانوں سے ملاقاتوں کو سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں، کئی نمایاں شخصیات نے اس دوران تحریک انصاف میں شمولیت کا اعلان بھی کیا ہے، اگر مہربانو قریشی ا س حلقہ میں خواتین کو متحرک کرنے میں کامیاب ہوجاتی ہیں اور وہ پولنگ کے دن ووٹ ڈالنے کے لئے گھروں سے نکل آتی ہیں ،تویہ ان کی کامیابی میں اہم کردار ادا کرسکتی ہیں ،کیونکہ ا س حلقہ میں ڈیڑھ لاکھ سے زائد ووٹ خواتین کا ہے ، یہ پہلا موقع ہے کہ حلقہ 157 سے کوئی خاتون انتخاب میں حصہ لے رہی ہے اور خاتون بھی وہ کہ جس کا تعلق ایک سیاسی و خانقاہی گھرانے سے ہے ، علی موسیٰ گیلانی نے اگرچہ 2018ء کے عام الیکشن میں 70ہزار سے زائد ووٹ لئے تھے اور اس بار بھی وہ بڑی موثر مہم چلارہے ہیں۔
وہ ڈور ٹو ڈور کمپین کررہے ہیں ،لیکن سید یوسف رضا گیلانی کی طرف سے اس قسم کی انتخابی مہم دیکھنے میں نہیں آرہی، جیسی کہ شاہ محمود قریشی چلار ہے ہیں ، یوسف رضا گیلانی بجائے لوگوں کے پاس جانے کے گیلانی ہاؤس میں انہیں بلا کر حمایت کی درخواست کررہے ہیں، انہیں ابھی تک اپنے بیٹے علی موسیٰ گیلانی کے لئے حلقہ میں جاکر انتخابی مہم چلاتے نہیں دیکھا گیا ، بہر حال مقابلہ دونوں طرف سے انتخابی مہم کی حد تک بہت کامیابی سے جاری ہے ، پانسہ اس وقت پلٹے گا ،جب عمران خان 8 ستمبر کو یہاں جلسہ کرنے آئیں گے ،یا پھر اس سے پہلے آصفہ بھٹو زرداری اس حلقہ میں جلسہ کریں گی ،آصفہ بھٹو کی آمد سے نفسیاتی طورپر پیپلزپارٹی کو یہ فائدہ ہوگا کہ ایک خاتون امیدوار کے مقابلہ میں بھٹو فیملی کی نوجوان خاتون رہنما علی موسیٰ گیلانی کے لئے حلقہ کے عوام خصوصاً خواتین سے حمایت کی درخواست کریں گی۔