• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

ضمنی الیکشن میں شکست: متحدہ کے زوال کی وجہ کیا ؟

کراچی شہر اپوزیشن کا شہر رہا ہے اور اس شہرنے ہمیشہ ثابت بھی کیا ہے۔حالیہ این اے 245 کے ضمنی انتخاب میں پی ٹی آئی کے امیدوار محمود باقی مولوی نے حکومتی اتحادی جماعت کے امیدوار ایم کیو ایم کے رہنما معید انور سمیت تحریک لبیک، فاروق ستار، پی ایس پی، مہاجرقومی موومنٹ کے امیدواروں کو چت کردیا غیرحتمی غیرسرکاری نتائج کے مطابق انہوں نے 29 ہزار 475 ووٹ حاصل کئے، ایم کیوایم کے معید انور نے 13ہزار 193ووٹ حاصل کرکے دوسری جبکہ تحریک لبیک کے محمد احمد رضاقادری نے 9836تیسرے نمبر پر رہے آزاد امیدوار فاروق ستار نے 3479ووٹ حاصل کئے اور مہاجر قومی موومنٹ کے محمد شاہد نے 1177 ووٹ حاصل کر کے پانچویں پوزیشن حاصل کی۔ 

ووٹنگ کی شرح تقریباً 12 فیصد رہی بعض پولنگ اسٹیشنوں پر نو بجے تک پولنگ ایجنٹ نہیں پہنچے تھے سیکورٹی انچارج کی نگرانی میں بیلٹ بکس کو سیل کیا گیاحلقے کے 263 پولنگ اسٹیشنوں میں سے 201کو انتہائی حساس قرار دیا گیا تھا، سیکیورٹی کے لئے رینجرز اور فوج  تعینات کی گئی تھی، میدان میں 15امیدوار تھے  تاہم اصل مقابلہ متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے معید انور، تحریک انصاف کے محمود باقی مولوی، ایم کیوایم کے سابق سربراہ ڈاکٹر فاروق ستار اور تحریک لبیک پاکستان کے محمد احمد رضا کے مابین تھاحلقے میں ، 5 لاکھ 15ہزار ووٹرز کے لئے 263 پولنگ اسٹیشن اور 1052 پولنگ بوتھ قائم کئے گئے ہیں، 2018ء کے عام انتخاب کے  مقابلے میں 71463 ووٹرز کا حلقے میں اضافہ ہوا ہے۔

پولنگ اتوار کو صبح 8 سے شام 5 بجے تک بغیر کسی وقفے کے جاری رہی چیف سیکرٹری سندھ سہیل راجپوت، صوبائی لیکشن کمشنر اعجاز انور چوہان، آئی جی سندھ اور دیگر افسران نے مختلف پولنگ اسٹیشنوں کا دورہ کیا پاکستان پیپلزپارٹی کے محمد دانش اور جمعیت علماء اسلام کے حاجی امین اللہ ایم کیو ایم پاکستان کے معید انور کے حق میں دستبردار ہوئے تھے اور اے این پی نے ایم کیو ایم کی حمایت کی تھی یہ نشست تحریک انصاف کے ڈاکٹر عامر لیاقت حسین کے انتقال سے خالی ہوئی ہے۔ 

عام انتخابات 2018ء میں تحریک انصاف کے ڈاکٹر عامر لیاقت حسین کو 56673، متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے ڈاکٹر فاروق ستار کو 35429، تحریک لبیک پاکستان کے محمد احمد رضا کو 20737، متحدہ مجلس عمل کے سیف الدین کو 20143، مسلم لیگ (ن) کے خواجہ طارق نذیر کو 9682، پاکستان پیپلزپارٹی کے فرخ نیاز تنولی کو 8823، پاک سرزمین پارٹی کے ڈاکٹر صغیر احمد کو 6222، مہاجر قومی موومنٹ کے محمد شفیق احمد کو 2890اور دیگر 7 امیدواروں کو 3404 ووٹ ملے تھے، جبکہ 2866ووٹ مسترد ہوگئے۔ 

عام انتخابات 2018ء میں حلقے کے ووٹرز کی تعداد 443540 تھی، جو 71463 ووٹ اضافے کے بعد515003ووٹ ہوگئےہیں۔ متحدہ قومی موومنٹ کے بانی کی جانب سے پولنگ کے بائیکاٹ کی اپیل کی گئی تھی اور راتوں رات حلقے میں وال چاکنگ بھی کردی گئی تھی ضمنی الیکشن میں پی ٹی آئی اور تحریک لبیک کا ووٹ بھی ٹوٹا تاہم ایم کیو ایم کا ووٹ بری طرح متاثر ہوا اس سے قبل این اے 240 کا ضمنی انتخاب میں ایم کیو ایم بمشکل 65 ووٹوں کی برتری سے جیتی تھی عام انتخاب کے مقابلے میں ضمنی انتخاب میں ان کے 50 ہزار ووٹ کم ہوگئے تھے اب ستمبر میں کراچی کے تین حلقوں این اے 237 ملیر، این اے 239 کورنگی اور این اے 246 لیاری میں ضمنی انتخاب ہونا ہے۔ ان حلقوں سے پی ٹی آئی کے قائد عمران خان نے بھی کاغذات نامزدگی جمع کرائی ہیں ان حلقوں میں پی ٹی آئی مخالف جماعتوں کے لیے مشکلات پیدا کرسکتی ہے ایم کیو ایم کے ارباب حل وعقد کو بھی یہ سوچنا ہوگا کہ ایم کیو ایم کے زوال کی وجوہات کیا ہے؟

عوام نے انہیں کیوں مسترد کردیاہے؟ این اے 245 کلی طور پر اردو زبان بولنے والوں کے ایریاز پر مشتمل حلقہ تھا وہاں سے شکست ایم کیو ایم کے مستقبل پر سوالیہ نشان ہے عوام پی پی پی سے 14 سال کی حکومت کا حساب مانگ رہے ہیں تو ایم کیو ایم سے بھی یہی سوال کررہے ہیں کہ انہوں نے کراچی کے لیے کیا حاصل کیا پی ٹی آئی دور میں کراچی کو کیا ملا پھر پی ٹی آئی حکومت کے خلاف اتحادی جماعتوں کا ساتھ دینے پر انہوں نے کیا حاصل کیا؟ ایم کیو ایم کو سنجیدگی سے ان سوالوں کا جواب دینا ہوگا ادھر بلدیاتی انتخابات کا دوسرا مرحلہ کلی طور پر الیکشن کمیشن نے قدرت کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا ہے۔ 

الیکشن کمشنر اعجاز انورچوہان کا کہنا ہے کہ اگر مزید بارشیں نہیں ہوئی تو دوسرے مرحلے کے انتخاب شیڈول ہے۔ جماعت اسلامی ، پی ٹی آئی، اور تحریک لبیک ہر صورت میں بلدیاتی انتخاب کا انعقاد چاہتی ہیں تاہم ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کراچی اور حیدرآباد ڈویژن میں بارش کی تباہ کاریاں پی پی پی کو دوسرے مرحلے کے بلدیاتی انتخاب میں جانے کی ہمت نہیں بندھارہی اور وہ انتخاب موخر کرنا چاہتی ہے وزیراعلیٰ سندھ سیدمرادعلی شاہ نے سندھ کے 23 اضلاع کوآفت زدہ قرار دیا ہے ان میں وہ اضلاع بھی شامل ہیں جہاں 28 اگست کو بلدیاتی انتخابات ہونے ہیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سندھ حکومت اور الیکشن کمیشن کے اجلاس میں بلدیاتی انتخاب کا دوسرا مرحلہ ایک بار پھر موخر کردیا جائے گا سندھ حکومت کا موقت ہے کہ آفت زدہ قرار دیئے جانے والے اضلاع میں سیلابی صورتحال ہے۔ 

سوال یہ پیداہوتا ہے کہ پی پی پی کی حکومت 14 برس سے کیاکررہی تھی؟کراچی حیدرآباد کی کوئی سڑک ایسی نہیں جو ٹوٹ پھوٹ کا شکار نا ہو، دنوں شہرگڑھوں کے قبرستان کا منظر پیش کررہے ہیں سڑکیں غائب ہوچکی ہے بڑے بڑے کھڈے سڑکوں پر بن چکے ہیں جو کسی بھی حادثے کا سبب بن سکتے ہیں۔ ایڈمنسٹریٹر کراچی مرتضیٰ وہاب نے کہا ہے کہ بارشوں کے بعد ٹوٹی ہوئی سڑکوں کی تعمیرومرمت کے لیے سندھ حکومت نے ڈیڑھ ارب روپے جاری کئے ہیں، پہلے مرحلے میں جن سات روٹس پر پیپلز بس سروس چل رہی ہے ان سڑکوں کی استرکاری کی جائے گی، جبکہ جہاں جہاں ضرورت ہوئی وہاں کی سڑکوں کی بھی تعمیرومرمت شروع کی جائے گی۔

دوسری جانب کراچی میں بجلی کی لوڈشیڈنگ میں کمی نہ ہوسکی بعض علاقوں سے شہریوں نے بتایا کہ خرابی کے نام پر مسلسل کئی گھنٹے لگاتار گھنٹے بجلی بند رکھی جاتی ہے کے الیکٹرک کی جانب سے رات کو دو سے تین بار اور دن میں بھی گھنٹوں کی لوڈشیڈنگ کا سلسلہ جاری ہے شہر کے تقریباً تمام علاقوں سے لوڈشیڈنگ کی اطلاعات ملیں۔ لوڈشیڈنگ کا سلسلہ دن رات جاری ہے جس سے شہری سخت اذیت کا شکار ہے۔

تجزیے اور تبصرے سے مزید
سیاست سے مزید