آسیہ عمران
اس کے گھر میں کچھ چیز یں حیران و پریشان کر دینے والی تھیں۔ پریشان کر دینے والی بات یہ تھی۔کہ قرآن کا ایک نسخہ کچن میں رکھا تھا، جس پر تیل کے نشانات نمایاں تھے۔ اسے بار بار جیسے گیلے ہاتھوں سے بھی پکڑا گیا ہو۔دوسرا نسخہ باہر باغیچہ کے ایک کونے میں لگی تختی پر رکھا تھا۔ اس کے اوراق بھی بوسیدہ تھے۔ ایک نسخہ اس کے بیڈ کی سائیڈ ٹیبل پر تھا۔ ایک لاوئچ میں۔ یقینا کئ دفعہ پیٹھ ہو جاتی ہو گی۔ بے ادبی ہوتی ہوگی۔اسے ذرا بھی احساس نہیں۔ دل میں غبار سا اُٹھا ،چہرہ متغیر ہو گیا ۔اس نے شاید بھانپ لیا تھا تب ہی بولی۔
دراصل بچے چھوٹے اور خاندان بڑا ہے۔ بے تحاشا مصروفیات میں ایک جگہ بیٹھ کر قرآن سے استفادہ کا موقع نہیں ملتا۔اس لئے جگہ جگہ قرآن رکھ دیئے ہیں ۔جیسے ہی گنجائش ملتی ہے، اُٹھا کر پڑھ لیتی ہوں۔ دراصل باجی مسئلے بھی تو دن میں ہزاروں طرح کے پیش آتے ہیں اور حل اسی میں ملتا ہے۔ میں کچھ سمجھ نہیں پائی، وہ گویا ہوئی۔ باجی اللہ نے قرآن کریم میں ہر مسئلے کا حل بتایا ہے۔یہ بات میرے ابا نے مجھے بتائی تھی۔
انھوں نے کہا اس سے دوستی کر لو،ہر معاملے میں اس سے پوچھا کرو ۔یہ کتاب تمھیں جواب دے گی۔ تمھارا ہر مسئلہ حل کرے گی۔ اور ہر مسئلہ کا حل بتائے گی کے مسئلے چند آیات ہی سے سلجھ جاتے ہیں۔ ان آیات پر میں نے ریڈ مارکنک کی ہوئی ہے۔ جب کوئی مسئلہ لاحق ہوتاہے تو فوراًقرآن کھولتی ہوں۔کبھی زیادہ وقت بھی لگتا ہے اور کبھی کھولتے ہی مسئلے کا حل مل جاتا ہے، تب میرے آنسو بہنے لگتے ہیں، رب کی محبت میں۔ بس اسی لئے ان نسخوں کی یہ حالت ہے۔
مثلاً کل ہی میری نند آئی ہوئی تھی ،کھانا کھلا کر کچن کی طرف جا رہی تھی کہ اس کی کچھ باتیں کانوں میں پڑیں، سن کر غصے سے بری حالت ہوگئی۔اتنی مشقت اور پھر یہ جزا۔ ایسے میں کیا کروں۔ قرآن کھولا تو فوراً ایک آیت پر نظر پڑی ،جس کے معنی تھے ،برائی کو اس نیکی سے رفع کرو جو بہترین ہو۔یہ پڑھ کر کچھ دیر سوچتی رہی ،پھر خیال آیا کہ کل جو میں اپنے لیے جیولری خرید کر لائی تھی ،نند کو دے دوں۔ بس یہ سوچتے ہی الماری سے جیولری نکالی اور جاکر نند کو دے دی۔ یہ سب دیکھ کر وہ بہت شر مندہ ہوئی ۔کچھ دیر مجھے دیکھتی رہی ،پھر رونے لگی۔
میں نے اسے گلے سے لگالیا ۔کہنے لگی بھابھی آپ واقعی بہت اچھی ہیں، سسرال میں منفی ماحول نے میری سوچ بھی منفی کردی ہے۔ مجھے معاف کردیں، میں نے آپ کے بارے میں غلط سوچا۔ آپ تو بہنوں سے بڑھ کر ہیں ۔اللہ آپ کو ہمیشہ خوش رکھے ،آباد رکھے۔ اُس کی باتیں سن کر عجیب سر شاری عطا ہوئی ۔آج جب آپ آئیں تو میں کھانا پکا چکی تھی۔ خیال آیا کیسے پورا ہوگا ۔قر آن کھولا تو اس میں لکھا تھا ،اگر تم شکر گزاری کرو گے تو اور زیادہ دوں گا، اور اگر ناشکری کرو گے تو میرا عذاب بھی سخت ہے۔ اس میں ہدایت بھی تھی اور تنبیہ بھی، میں کانپ گئی۔ کہ مہمان تو اللہ کی رحمت ہوتے ہیں اس رحمت پر ناشکری کرنا غلط بات ہے۔
اس بروقت عنایت پر شکر ادا کیا۔ میں نے فریج میں دیکھا مٹر رکھے تھے۔مٹرچاول پکانے کا ارادہ کرہی رہی تھی کہ پڑوس سے بریانی کی ڈش آگئی۔ میاں آفس سے آتے ہوئے حلیم لے آئے۔ اللہ نے فوراً ہی میری پریشانی ختم کردی۔بس باجی ہر مشکل لمحے میں قر آن کھولتی ہوں اور مجھے مسئلے کا حل مل جاتا ہے ۔گزشتہ سال میاں کی نوکری ختم ہوگئی ۔بڑی پریشان تھی ۔قر آن کھولا تو پڑھا استغفار کرو بدلے میں تمہیں بارش بھی دونگا ،مال اور اولاد بڑھائوں گا،باغات اور نہریں عطا کروں گا ۔میں تو حیران رہ گئی ۔استغفار کے اتنے فوائد ۔پھر میں نے سوچ کر ہر اس شخص سے معافی مانگی ،جس سے گمان تھا کہ کبھی نہ کبھی اس کا دل دکھایا ہوگا ۔ساتھ ہی زبان سے استغفر ُاللہ کہتی رہی ۔سیدالا استغفار کا بھی ورد دہا ۔یقین جانیں ۔تین دن کے اندر ہی اس کے اثرات ظاہر ہوگئے۔
ایک خاندان سےعرصے سے ناراضگی تھی ۔معافی تلافی کے بعد وہ سب گھر آئے۔ باتوں باتوں میں اس نے اپنی کمپنی میں ایک پوسٹ خالی ہونے کا ذکر کیا۔ شوہر کو کمپنی آنے کا کہا۔ اُن کے تجربے کی بنیاد پر تین گنا تنخواہ اور کئی سہولیات کے ساتھ ملازمت مل گئی۔ اور ناراض لوگوں کے راضی ہونے سے جو سکون ملا۔ اس کا تو اندازہ ہی نہیں کئ برکتوں کی بارش اور خوشیوں کے باغ گویا ہاتھ آگئے۔ اور میں ایک دم سرشار ہو گئی۔ میرے رب نے مجھے بتا دیا کہ ہربڑی منزل کا راستہ کٹھن اور نتیجہ شاندار ہو تا ہے ۔میں نے پڑھا کہ صبر میں اصل طاقت ہے ،بس پھر کیا تھا میں نے صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا ۔ماہ وسال کیسے گزرے پتا ہی نہیں چلا۔ مشکلا ت دیکھنے کا زوایہ جو بدل گیا تھا۔
میرے سوال اور قرآن کے جواب کا سلسلہ کبھی رکتا نہیں۔ اب ایک تبدیلی آئی ہے۔ مسئلے بچوں سے ڈسکس کرتی ہوں۔ اور پھر سب تلاش میں لگ جاتے ہیں۔کبھی بچے خوشی میں پاس آ تے ہیں اور کہتے ہیں۔ دیکھیں امی میرا مسئلہ یہ تھا۔ اور قرآن نے اس کا یہ جواب دیا ہے۔ ان کے ننھے ننھے سوالات انکی سمجھ کے مطابق جوابات سارا ماحول معطر کر دیتے ہیں۔ قرآن میں لگے سب نشانات بچوں کے ہیں ۔ ہر ایک نے اپنا کلر طے کر رکھا ہے۔ کبھی مقابلہ کرتے ہیں کہ دیکھو۔میرے زیادہ مسئلے حل ہوئے ہیں۔
دیکھو میرے نشانات زیادہ ہیں۔ وہ بہت سادگی سے قرآن کو سینے سے لگائے بتائی جا رہی تھی اور میں سحر زدہ کہ روشنی سے میری آنکھیں چندھیا رہی تھیں۔ شرمندگی سوا تھی۔ قرآن سے ایسا تعلق بھی ہو سکتا ہے سوچا بھی نہ تھا۔ اور نہ ہی ایسی رہنمائی میسر تھی۔اب دل کا غبار ندامت میں ڈھلا تو آنسوؤں کی صورت میں نکلا۔ کاش قرآن کی ظاہری رکھ رکھاؤ کے بجائے جتنی ہی توجہ اس کی روح اور اصل پیغام پردی ہوتی۔ تو یہ شعور اور قرب میرے نصیب میں بھی آتا۔ اور آج یوں دکھوں کی گٹھڑیاں سینے سے لگائے نہ پھر رہی ہوتی۔ مجھے اچانک ہی لگا اوپر بہت اوپر رکھا قرآن مجھ سے کچھ خفا سا ہے۔