ٹیلی ویژن کے معروف پروڈیوسر قاسم جلالی کے نام سے کون واقف نہیں، ٹی وی ڈرامے کی دُنیا کا مقبول نام ہے، جن کے پیش کردہ ڈرامے ماضی میں شان دار کام یابی سے ہم کنار ہوئے۔ وقت کا آسمان، عُروسہ، لبیک، بابر، حسینہ عالم، افسوس حاصل کا، ٹیپو سلطان، گردش، ہنستے بستے، قصہ چہار درویش سمیت بے شمار ڈراما سیریل، سیریز اور انفرادی کھیل ایسے ہیں، جو ان کی بے مثال ہدایت کاری کا مظہرہیں۔ انہوں نے بہت سے فن کاروں کو پہلی بار ٹیلی وژن اسکرین پر متعارف کروایا۔ ان میں آفرین بیگ، ماریہ جلالی، اذان سمیع خان، مشی خان، شمع جونیجو، طاہر کاظمی اور دیگر کئی نمایاں ستارے شامل ہیں۔
قاسم جلالی، جنہیں عرف عام میں فن کار لوگ ’دادا‘ کہتے ہیں، ان کے ڈراموں کی خاص بات، بڑی لمبی چوڑی کاسٹ، گھرکے بنے بہترین پکوان سے فن کاروں کی تواضح اور وسیع و عریض سیٹ تھا۔ انہیں تاریخی ڈرامے پیش کرنے میں مہارت حاصل رہی۔ قدیم دور کے لباس، زیورات، ہتھیار، گھوڑے، میدان جنگ، یہ سب دادا بڑے کمال سے اسکرین یہ پیش کرتے رہے۔ محدود وسائل میں بڑی پروڈکشن صرف ’دادا‘ ہی کرسکتے تھے۔
اب اسکرپٹ میں لکھا ہوا ہوتا تھا کہ جنگ کے میدان میں فوجیں ایک دوسرے کے مقابل ہیں، گھوڑے سرپٹ دوڑ رہے ہیں، تلواریں چل رہی ہیں، ایک دوسرے پر وار ہو رہے ہیں، زخمی کراہ رہے ہیں، حملہ آور کے وار سے سپاہی کے جسم سے خون کا فوارہ نکلتا ہے۔ اب یہ تمام مناظر بیان کرنا اور لکھنا تو شاید آسان ہے، لیکن اسکرین پر دکھانا کافی جوکھم ہے۔ اس دور میں جب تیکنیکی طور پرشاید اتنی جدید سہولیات نہیں تھیں، قاسم جلالی نے اس طرح کے مشکل مناظر خُوب صورتی سے ریکارڈ کیے، یہاں ہم ایڈیٹر طلعت رضا کی بھی تعریف کریں گے، پی ٹی وی کے بہت ہی قابل ایڈیٹنگ ایکسپرٹ تھے۔
خیر صاحب بات ہورہی تھی، قاسم جلالی کے تاریخی ڈراموں کی، تو اس میں وارڈ روب اور میک اپ سیکشن کا بھی اہم کردار رہا۔ مختلف کرداروں کے مختلف گیٹ اپ، مصنوعی مونچھیں، مصنوعی بال، جنگی لباس، شاہانہ لباس، عام لباس، غرض کہ یہ دو ڈیپارٹمنٹ یعنی ملبوسات اور میک اپ، ان کا بھی ذکر ضروری ہے، بالکل اس طرح جس طرح سیٹ ڈیزائن والوں کا، محل، دربار، بارہ دری، فوارے، باغ، قدیم وضع کا فرنیچر وغیرہ وغیرہ۔ یعنی ہر شعبہ اپنی مثال آپ۔ پی ٹی وی کا میک اپ ڈپارٹمنٹ، جسے کمال الدین احمد ہیڈ کرتے تھے، ان کی ٹیم میں للی رضا، ثمینہ قیصر، ایم وائی مرزا، شاکر، روفی اور واحد شامل ہوتے تھے۔
کیا زمانہ تھا، کیا لوگ تھے، کیا زبردست کام ہوتا تھا۔ ہر شخص اپنی جگہ عمدہ کام کرتا تھا۔ کیمرامین، سیٹ ڈیزائنر، میک اپ آرٹسٹ، سائونڈ انجینئر، بوم آپریٹر، اوپر پینل پر بیٹھے حضرات، سب ہی کی محنت شامل رہی۔ کرداروں کو نبھانے والے فن کار، جو فن سے اور اپنے کام سے محبت کرتے تھے، جنہیں اس سے کوئی غرض نہیں تھی کہ معاوضہ کم ہوگا یا زیادہ صرف کام پر توجہ۔ ایسے ماحول میں کام کرنے کا جو مزہ آتا تھا، وہ بس اب صرف ایک میٹھی یاد ہی بن کر رہ گیا ہے۔
میرٹ، ایک ایسا لفظ ہے، جو کبھی سب کی ترجیح ہوا کرتا تھا۔ شاید اسی سبب ظہور احمد، قاضی واجد، سبحانی بایونس، محمود علی، محمد یوسف، ماجد علی، امتیاز احمد، ہادی الاسلام، عرش منیر، عشرت ہاشمی، بیگم خورشید مرزا، عذرا شیروانی، کمال احمد رضوی، ذہین طاہرہ، رضوان واسطی، طاہرہ واسطی، جمشید انصاری، حمید وائن، روحی بانو، خالدہ ریاست کو اب بھی لوگ یاد کرتے ہیں۔ دوسری جانب ساحرہ کاظمی، راحت کاظمی، فاروق قیصر، ثروت عتیق، طلعت حسین، شکیل، عائشہ خان، مظہر علی، سہیل اصغر، نیر کمال، انور سجاد ، جیسے انمول فن کار جن کے فن کے سحر سے آج تک کوئی نہیں نِکل سکا۔
ثمینہ پیرزادہ، عثمان پیرزادہ، شہناز شیخ، مرینہ خان، بدر خلیل، صبا حمید، ہما حمید، عابد علی، فردوس جمال، طاہرہ نقوی، عظمی گیلانی، زیب رحمان، بیگم خورشید شاہد، فائزہ حسن، وسیم عباس، سلمان شاہد، نوید شہزاد، غیور اختر، نگہت بٹ، کیسی ستاروں کی کہکشاں تھی! ان میں سے بعض فن کار اب بھی ٹی وی اسکرین پر نظر آتے ہیں، لیکن نئے دور میں سب کچھ تبدیل ہوگیا ہے۔ اب وہ لکھاری نہیں رہے، وہ ہدایت کار نہیں رہے۔ کام کرنے کا اسٹائل بھی تبدیل ہوگیا ہے۔ کمال احمد رضوی، اشفاق احمد، بانو قدسیہ، خان آصف، حمید کاشمیری، یونس جاوید، اصغر ندیم سید، فاطمہ ثریا بجیا، حسینہ معین، منو بھائی، مستنصر حسین تارڑ، امجد اسلام امجد کے ڈرامے سدا بہار ثابت ہوئے، جن پر وقت کے گزرنے کا کوئی اثر نہیں ہوا۔
یہ ماضی میں بھی مقبول تھے اور آج بھی اتنے ہی پسند کیے جاتے ہیں۔ وقت گزرتا ہے، تو تبدیلی بھی لاتا ہے، کبھی یہ تبدیلی اچھی ہوتی ہے، کبھی لوگ گزرے وقت کو ہی یاد کرکے اسے بہتر تصور کرتے ہیں۔ پاکستانی ڈرامے جن وقت، حالات اور زمانے سے گزرے ہیں، وہ سب ہی پر عیاں ہیں۔ پُوری دُنیا میں ہمارے ڈراموں کی دھاک ہے۔ نئے چہرے، نئے لکھاری، نئے انداز، گلیمر سے بھرپور ایک سجی سجائی پروڈکشن آج کا تقاضا ہے۔ ہم جب تاریخی ڈراموں کی بات کرتے ہیں، تو قاسم جلالی کا نام اس میں سرفہرست ہے۔
دِل چسپ بات ہے کہ قاسم جلالی نے ایک ڈراما سیریل ’’باادب باملاحظہ ہوشیار ‘‘ میں مرکزی کردار ادا کیا۔ یہ سیریل اطہر شاہ خان جیدی مرحوم نے لکھی تھی، جب کہ ہدایات حیدر امام رضوی کی تھیں۔ ہم بھی اس ڈرامے کا حصہ تھے۔ کاسٹ میں قاسم جلالی، عرش منیر، ملک انوکھا، سبحانی بایونس، فہمید احمد خان، اطہر شاہ خان جیدی، ہمایوں ناز، شہزاد رضا، امبر نیسنی، ایلیا شاہ، یعقوب زکریا، ساجدہ سید اور دیگر بے شمار آرٹسٹ تھے۔ یہ ڈراما طنزو مزاح سے بھرپور تھا اور اس کی خُوب صورتی یہ رہی کہ ہر دور میں لگتا ہے کہ یہ موجودہ زمانے کی عکاسی کررہا ہے۔
مذکورہ ڈرامے میں اطہر شاہ خان جیدی نے شہزادے کے اثالیق کا کردار نبھایا، وہ شہزادے بنے تھے، ملک انوکھا، قاسم جلالی بادشاہ اور عرش منیر ملکہ کے روپ میں تھیں۔ سبحانی بایونس مورخ کا کردار نبھا رہے تھے اور ہم ان کی بیٹی کا۔ اس ڈرامے میں معروف مزاحیہ فن کار حنیف راجا نے بھی اداکاری کی اورایوب جان سرہندی بھی ڈرامے کی کاسٹ میں شامل تھے۔
ڈرامے کی کہانی کچھ یُوں تھی کہ ایک نااہل اور ظالم بادشاہ عوام پر جبر کی حکومت کرتا ہے، اس کے خوشامدی درباری اس کے ہر عمل کو صحیح گردانتے ہیں اور اس کا نِکھٹو بیٹا یعنی شہزادہ صحیح کو غلط اور غلط کو صحیح کہتا ہے، جس پر سب درباری اس کی تائید کرتے ہیں۔ ہمیں خوشی ہے کہ ہم نے ’’باادب باملاحظہ ہوشیار‘‘ ڈرامے میں کام کیا۔ اس ڈرامے میں قاسم جلالی نے لاجواب اداکاری کی۔ دادا، جتنے بہترین ڈائریکٹر تھے، اتنے ہی اچھے اداکار بھی۔ انہوں نے مقبول ڈراما ’’تعلیم بالغان‘‘ اور نشانِ حیدر میں بھی اپنی اداکاری کے جوہر دکھائے۔
قاسم جلالی اب ریٹائر ہوگئے ہیں، اسکرین پر نظر بھی نہیں آتے، لیکن جو کام انہوں نے ٹیلی وژن کے لیے کیا، اس کے لیے انہیں جتنا بھی سراہا جائے، کم ہے۔ ڈراموں کی تاریخ میں کراچی مرکز سے اگر کوئی نام سرفہرست رہا ہے، تو وہ ہے، قاسم جلالی!! اللہ انہیں زندگی دے، انہوں نے ڈرامے کو اپنی محنت سے وہ مقام دلوایا کہ دنیا بھر میں پی ٹی وی کا نام گونجتا تھا۔
آج ہم ترکی کے ڈراموں کو دیکھتے ہیں، تو اپنے ڈراموں کا خیال آتا ہے، عوام میں پسند کیے جانے والے ترک ڈرامے تاریخی بھی ہیں اور باکمال بھی۔ لوگ تاریخی سیریل پسند کرتے ہیں، ارتغرل غازی ہو یا میرا سلطان، کوسم سلطان ہو کرلس عثمان، ترکی کے یہ ڈرامے مقبولیت کی انتہا پر ہیں۔ کاش ہمارے یہاں بھی کوئی ایسا ڈراما بنے، تو اچھا لگے گا، ہم سب کواس کا انتظار ہے۔