اسلام آباد(رپورٹ:، رانا مسعود حسین ) عدالت عظمیٰ نے ʼʼکام کی جگہ پر خواتین کو ہراساں کرنے ʼʼسے متعلق ایک مقدمہ کا فیصلہ جاری کرتے ہوئے قراردیاہے کہ کسی بھی شخص کی جانب سے بھی کام کی جگہ پر ہراسیت کا کوئی بھی ایسا اقدام جو دوسرے شخص کو قانونی کاروبار یا پیشہ اختیار کرنے سے روکتا ہو؟ اسے ہراساں کرنے کے مترادف تصور ہوتاہے،عدالت نے قرار دیا ہے کہ آئین نے مرد و خواتین اور خواجہ سرائوں کو کام کرنے کی جگہ پر ایک آزاد ،ہراسیت،تذلیل اور دھمکیوں سے پاک ماحول فراہم کرنے کی ضمانت دی ہے ،عزت و تکریم ہرانسان کا پیدائشی اور بنیادی حق ہے ،اس لئے زندگی کے ہر شعبے میں صنفی امتیاز کاخاتمہ اور دوسروں کی عزت و تکریم کے تحفظ کوآئین نے بلاامتیاز سب کیلئے لازمی قرار دیا ہے ،8صفحات پر مشتمل یہ فیصلہ جسٹس منصور علی شاہ نے قلمبند کیا ہے ،فاضل جج نے فیصلے کی ابتداء میں معروف انقلابی شاعرفیض احمد فیض کے اشعار ʼʼبول کہ لب آزاد ہیں تیرے ،بول زباں اب تک تیری ہے ،تیرا ستواں جسم ہے تیرا ،بول کہ جاں اب تک تیری ہے ʼʼ قلمبند کرتے ہوئے قراردیاہے کہ ہم شیطانی روایات کا شکار ہیں، خواتین کو محض گھروں کی چار دیواری میں قید رکھنا انسانیت کیخلاف جرم ہے، جس طرح ہماری خواتین رہتی ہیں، دنیا میں کہیں پر بھی ایسی پابندیاں نہیں،قائد اعظم محمد علی جناح کے الفاظ میں کوئی قوم اس وقت تک ترقی نہیں کر سکتی، جب تک کہ اس کی خواتین مردوں کے شانہ بشانہ کھڑی نہ کھڑی ہوں۔