• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

محمد محسن

آج کل ہر انسان اپنے لئے سوچتا ہے اور فکر معاش میں ارد گرد سے لا تعلق سا نظر آتا ہے۔ بے روزگاری ، مہنگائی، فقر وفاقہ، بے چینی، بدامنی اور اضطراب میں بے انتہا اضافہ ہوگیا ہے، اس صورت حال نے بے شمار معاشرتی، اقتصادی ، تہذیبی اور ثقافتی وتمدنی مسائل کو جنم دیا ۔ اکثریت خط غربت سے نیچے زندگی بسر کر رہی ہے۔ انسان کی ضروریات میں صحت، تعلیم، لباس اور طعام و قیام ہے، مگر بیش تر ان سے محروم ہیں۔

ایسے حالات میں قابل تحسین ہیں وہ نوجوان جو لوگوں کے دُکھ درد سمیٹنے اور ان میں آسانیاں بانٹنے کے لئے سرگرم ہیں۔ وہ دکھی انسانیت کی خدمت اور فلاحی کام میں حصہ لے کر معاشرے کی بہت بڑی خدمت کر رہے ہیں ۔ایک دوسرے کے کام آنا اچھے معاشرہ کی تشکیل کا نقطہ ٔ آغاز ہوتا ہے۔ جن معاشروں میں انفرادی، اجتماعی، ریاستی اور قومی سطح پر انسانوں میں درد مندی، خدمتِ خلق اور انسانی فلاح و بہبود کا جذبہ نظری ، فکری اور عملی طور پر مروج ہے وہ معاشرہ مجموعی طور پر دن دْگنی رات چوگنی ترقی و خوشحالی کے زینے آسانی سے چڑھ رہے ہیں۔

آج کے اس پرفتن دور میں کچھ نوجوان بھی فلاحی کاموں میں کسی سے پیچھے نہیں۔ وہ دوسروں کے لیے روشنی کی کرن ہیں، جو خدمت خلق کے جذبے سے سرشاراپنا کلیدی کردار ادا کر رہے ہیں۔ ایسے درد دل رکھنے والے نوجوان معاشرے کی شان ہیں، وہ بے غرض ہو کر خدمت خلق کا کام انجام دے رہے ہیں۔ ایسے ہی ایک نوجوان کا قصہ نذرِ قارئین ہے جسے دیکھ کربہت سی امیدیں روشن ہوگئیں کہ ہمارے نوجوانوں میں انسانیت اور خدمتِ خلق کا جذبہ موجود ہے۔

ایک خوش باش نوجوان کمر پر بیگ لٹکائے فٹ پاتھ پر چلاجا رہا تھا کہ اچانک ایک ناگہانی افتاد نے اسے آلیا۔ کسی چھت کے پرنالے سے اچانک کسی آبشار کی طرح پانی وارد ہوا اوراسے بھگودیا۔ اس سے پہلے کہ میرے منہ سے ہنسی کا فوارہ بلند ہوتا اس نوجوان نے عجیب حرکت کی،۔ اس نے بغیر کچھ برا منائے ادھر ادھر دیکھا اور اسی گھر کے سامنے رکھاگملہ اس بہتے آبشار کے نیچے رکھ دیا جس میں لگا پودا پانی کی کمی سے سوکھ رہا تھا ۔ نوجوان آگے بڑھا تو اس کی نظر ایک ٹھیلے والی اماں پر پڑی جس سے اپنا ٹھیلہ فٹ پاتھ پر نہیں چڑھ رہا تھا وہ فوراً آگے بڑھا اور اس کی مدد کرنے لگا۔ 

ٹھیلہ فٹ پاتھ پر چڑھا کر وہ اسی فٹ پاتھ پر تھوڑا آگے ایک چھوٹے سے ہوٹل پر کھانا کھانے رکا، ابھی اس کا کھانا آیا ہی تھا کہ ایک کتا آگیا اور اسکے پاس بیٹھ گیا اس نے کچھ کھانا کتے کے آگے ڈال دیا۔ میری دلچسپی بڑھ گئی۔ کھانا کھا کر وہ اٹھا تو میں اسکے پیچھے چل پڑا۔ ایک جگہ ایک بھکارن اپنی بیٹی کے ساتھ بیٹھی بھیک مانگ رہی تھی وہ وہاں رکا تو میں بھی ایک عینک فروش کے پاس رک گیا۔ اس نے اپنا پرس کھولا اور کچھ پیسے اس بھکارن کی بیٹی کو دے دیئے۔ 

 نوجوان نے ذرا آگے جا کر کیلے خریدے اور چل پڑا پھر ایک عمارت میں مڑا اور ایک دروازے کے ہینڈل سے کیلے لٹکائے اور جلدی سے دروازہ بجا کر بھاگ گیا۔ میں چھپ کر دیکھنے لگا کہ دیکھیں کیا ہوتا ہے۔ تھوڑی دیر میں دروازہ کھلا اور ایک اسی پچاسی سال کی بڑھیا جسکے دانت کب کے جھڑ چکے تھے باہر نکلی ،کیلے اتارے اور اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے لگی نہ جانے کس فرشتے کو اس نے غیبی امداد پر مامور کررکھا ہے۔ کئی دن تک میرا اور نوجوان کا معمول یہی رہا کہ وہ آگے آگے اپنے معمولات دہراتا جاتا اور میں چھپ کر اسکا پیچھا کرتا رہتا ۔اور پھر ایک دن تبدیلی آگئی۔ 

چھت سے آبشار تو اسی طرح گملے میں گر رہا تھا لیکن وہ سوکھا پودا ہرا بھرا ہوچکا تھا اس پر بیٹھی تتلی کو دیکھ کر وہ نوجوان بچوں کی طرح خوش تھا ۔ معمول کے مطابق آگے بڑھے تو ٹھیلے والی بڑھیا کو میں نے اس نوجوان کا منتظر پایا اور جیسے ہی وہ نظر آیا، بڑھیا اسے دعائیں دینے لگی۔ آج کتے نے کھانا کھانے کے بعد بھی اس نوجوان کا ساتھ نہیں چھوڑا تھا اور اس کے پیچھے پیچھے چل دیا تھا ۔ ہم آنکھ مچولی کھیلتے اس بھکارن کے پاس پہنچے تو اس نوجوان کےساتھ ساتھ میں بھی پریشان ہو گیا کیونکہ وہاں وہ چھوٹی بچی نظر نہیں آرہی تھی۔ 

ابھی نوجوان یہ دیکھ ہی رہا تھا کہ ا سکول یونیفارم میں ملبوس ایک چھوٹی پیاری سی بچی بستہ لٹکائے اس نوجوان کی ٹانگوں سے آکر لپٹ گئی اور رو رو کر اس کا شکریہ ادا کرنے لگی۔ میری آنکھیں تو اس منظر سے بھیگ ہی گئیں تھیں کہ کسی نے زور سے میرا ہاتھ دبا دیا دیکھا تو عینک فروش بابا جی آنکھوں میں آنسو لیے میرا ہاتھ دبائے کھڑے تھے اور اس نوجوان کی خوشی کے تو کیا ہی کہنے تھے۔ 

آخر کو نوجوان وہاں سے آگے بڑھا ،کیلے لیے اور اس بوڑھی اماں کے دروازے پر پہنچا ۔ ابھی کیلے لٹکا کر دروازہ بجانے ہی والا تھا کہ دروازہ ایک جھٹکے سے کھلا اور وہ بوڑھی اماں پوپلے منہ پر اداس آنکھوں میں خوشی کی ایک گہری چمک لیے کھڑی تھی ، پھر اس نے نوجوان کو گلے سے لگا لیا اور میں آنکھوں میں آنسو لیے یہی سوچتا رہ گیا کہ بےچینی اور حقیقی خوشی میں بس خدمت خلق کا فاصلہ ہے۔

ہیں لوگ وہی جہاں میں اچھے

آتے ہیں جو کام دوسروں کے

ایک دوسرے کے کام آنا ان کے دُکھ درد میں شریک ہونا ہی انسانیت اور عبادت ہے۔ جو انسان دوسروں کے لیے آسانیاں پیدا کرتا ہے اللہ تعالیٰ اُس کے لیے آسانیاں پیدا فرماتے ہیں۔ آپ سوچیں لوگوں کی زندگیاں بہتر بنانےکے لیے کیا کر سکتے ہیں؟ وہ کون سی سرگرمیاں ہیں، جنہیں انجام دے کر آپ بہت زیادہ نہیں تو کچھ تو اُن کی اور معاشرے کی بہتری کے لیے اپنا حصہ ڈال سکتے ہیں۔ غریب نادار بچوں کو مفت کتابیں فراہم کرکے، کسی بیمار کے لئے ادویات فراہم کرکے، خون کا عطیہ اور راشن دے کرخود کو کتنا پرسکون محسوس کریں گے، اُس کا احساس اُسی وقت ہوگا جب آپ یہ سب کچھ کریں گے تبدیلیاں لا ئی جا سکتی ہیں۔