• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

32 سال پاکستان میں گزارے،32روپے بھی نہیں ملے، بھارتی جاسوس

کراچی (نیوز ڈیسک) پاکستان میں قید گزار کر بھارت لوٹ جانے والے بھارتی جاسوس 59سالہ کلدیپ جادھو نے اپنی حکومت سے شکوہ کیا ہے کہ انہوں نے 32 سال پاکستان میں گزارے لیکن انڈین ریاست گجرات کی حکومت کی جانب سے انہیں 32 روپے بھی موصول نہیں ہوئے جس سے وہ نئی زندگی کی شروعات کرسکتے۔ کلدیپ نے بتایا کہ انہیں 1991میں جاسوسی کیلئے پاکستان بھیجا گیا تھا جب ان کی عمر صرف 27برس تھی ، 1994میں واپس لوٹنا تھا تاہم اس سے قبل ہی پاکستانی سکیورٹی ایجنسیوں نے گرفتار کرلیا۔ بھارتی اخبار سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ ’مودی حکومت کی طرف سے کوئی بھی مجھ سے ملنے نہیں آیا۔ میں نے اپنے ملک کے لیے سب کچھ قربان کیا اور بدلے میں مجھے کچھ نہیں ملا۔‘کلدیپ کا دعویٰ ہے کہ ’میں صرف 27 سال کا تھا جب مجھے 15 مارچ 1991 میں پاکستان جاسوسی کے لیے بھیجا گیا۔‘انہوں نے مطالبہ کیا کہ انڈیا میں مرکزی حکومت اور گجرات کی ریاستی حکومت کو ان کی مدد کرنی چاہیے۔’مجھے ایک گھر چاہیے اور معاشی مدد بھی چاہیے تاکہ میں عزت دار زندگی گزار سکوں۔میری زندگی ابھی اپنے چھوٹے بھائی دلیپ ار بہن ریکھا کے سہارے گزر رہی ہے۔‘کلدیپ چاہتے ہیں کہ ’مجھے پینشن ملے اور وہ تمام سہولیات بھی ملیں جو ریٹائرڈ فوجی اہلکاروں کو ملتی ہیں۔‘کلدیپ جادھو نے اپنی زندگی کے 28 سال پاکستان کی جیل میں گزارے اور انہیں پچھلے ماہ رہائی ملی اور وہ واہگہ بارڈر کے ذریعے انڈیا پہنچے۔کلدیپ دراصل ایک انڈین جاسوس تھے جسے 1991 میں پاکستان جاسوسی کی غرض سے بھیجا گیا تھا۔ 28 اگست کو پاکستان سے انڈیا واپسی کے موقع پر انہوں نے صحافیوں کو بتایا تھا کہ انہیں دو سال کے لیے پڑوسی ملک بھیجا گیا تھا اور انہیں 1994 میں اپنے ملک واپس لوٹنا تھا۔لیکن انہیں اس سے قبل ہی پاکستانی سکیورٹی ایجنسیوں نے پاکستان کے صوبہ پنجاب سے گرفتار کیا اور پھر انہیں جاسوسی کے الزام میں ایک عدالت نے عمر قید کی سزا سنادی۔ کلدیپ اب بھارت میں اپنے گھر آچکے ہیں اور احمد آباد کے علاقے چندکھیڑا میں مقیم ہیں لیکن وہ اپنی حکومت سے خوش نظر نہیں آتے۔پاکستانی جیل میں گزرے ہوئے وقت کا ذکر کرتے ہوئے کلدیپ کا کہنا تھا کہ وہاں ان کی ایک سابق پولیس اہلکار اور سابق بینک مینیجر نے بہت مدد کی۔’ایک پولیس انسپکٹر بھی میرے ساتھ جیل میں بند تھا اور وہ بہت سارے کام میرے ساتھ مل کر کیا کرتا تھا۔ اسی طرح ایک بینک مینیجر بھی وہاں قید تھا جو نہ صرف میرا دوست بن گیا تھا بلکہ اس نے مجھے مالی مدد کی بھی پیشکش کی تھی۔‘
اہم خبریں سے مزید