ملک بھر کی طرح خیبرپختونخو میں بھی حالیہ بارشوں اور سیلاب نے خوفناک تباہی مچادی ہے، سیلاب کا زور ٹوٹ کر گزر گیا ہے، مگر اپنے پیچھے تباہی و بربادی کے کئی داستان اور ویرانیاں چھوڑ گیاہے، حالیہ سیلاب نے صوبے کے ایک بڑے حصے کو بری طرح متاثر کیا ہے ،لاکھوں کی تعداد میں شہری بے گھر ہوگئے ہیں، سینکڑوں کی تعداد میں لوگ یا تو کچی آبادیاں گرنے یا سیلاب کی نذر ہونے کے باعث اپنی جانیں گنوا بیٹھے۔
اس قدرتی آفت سے ہونیوالے نقصان اور متاثریں کی بحالی کے لئےجاری امدادی سرگرمیوں کا جائزہ لینے کے لئے وزیر اعظم میاں شہباز شریف اور آرمی چیف جنرل قمرجاوید باجوہ کے علاوہ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان اور وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا محمود خان نے صوبے کے متاثرہ علاقوں کے دورے کئے اور عوام کے ساتھ اظہار ہمدردی کیا ،مگر اس ملک کے مفاد پرست سیاستدان اس مشکل وقت میں بھی متحد نہ ہوسکے اور ہر کسی نے اپنی اپنی سیاسی دکان چکانے کےلئے متاثرہ علاقوں کے الگ الگ دورے کئے اور اس قدرتی آفت جو اپنے ساتھ ہر چیز بہاکر لے گیا ہے، کو بھی اپنی سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کیا گیا اور افسوسنات امر یہ اپنی طرف سیلاب متاثرین کی مدد کرنے کی بجائے باہر کی دنیا سے خیرات میں ملنے والے امدادی سامان متاثرین کو دیتے وقت فوٹو سیشن کرتے رہے۔
حالانکہ اس ملک کا بدقسمت غریب طبقہ اس امید میں تھا کہ انہیں اس مشکل ترین صورت حال سے نکالنے کےلئے اس ملک کے سیاستدان ذاتی انا اور سیاست ایک طرف رکھ ہمیں اس مشکل صورت حال سے نکالنے کے لئے تک جان و قالب ہوجائیں گے، مگر افسوس کے اس خوفنات قدرتی آفت میں بھی ہمارے ملک سیا ست کا کھیل جاری رکھا، اور اس مشکل وقت میں بھی قریب ایک دوسرے کے قریب آنے کی بجائے وفاق اور خیبر پختونخوا حکومت کے مابین دوریاں مزید بڑھ گئیں۔
اس مشکل ترین وقت جب لاکھوں کی تعداد میں لوگ بے سرو سامانی کے عالم میں بے گھر ہوکر کھلے آسمان تلے رہنے پر مجبور ہوگئے ایسے وقت میں بعض سیاسی رہنماء اور خصوصاً منتخب ارکین پارلیمنٹ، بلدیاتی نمائندے متاثرین کے پاس جانے اور ان کی مدد کرنے کی بجائے اپنے حلقوں سے غائب رہے۔ وہ مسلسل سرکاری اور غیر سرکاری تنظیموں کی جانب سے عطیہ میں دی جانےوالی امداد کی تقسیم کے دوران فوٹو سیشن کےلئے نظر تو آتے مگرکسی سیاستدان یا رکن پارلیمنٹ کا یہ اعلان سننے میں نہیں آیا کہ انہوں نے ذاتی حیثیت میں متاثرین کی کتنی مدد کی۔
وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا محمود خان اور انکی کابینہ کے وزیر شوکت علی یوسفزئی نے سیلاب متاثرین کی صورت حال اور امدادی سرگرمیوں کا جائزہ لینے کےلئے جنوبی اضلاع سے اپنے دوروں کا آغاز کرتے ہوئے چترال، دیر، شانگلہ، سوات،چترال، چارسدہ، نوشہرہ اور دیگر متاثرہ علاقوں میں متاثری کے کیمپوں میں جاکر انہیں فراہم کی جانیوالی امدادی سرگرمیوں اورسرکاری اداروں کی کارکردگی کا جائزہ لیا۔ اگرچہ زیادہ تر متاثرین اپنے گھروں میں واپس جاچکے ہیں مگر ساتھ ہی انکے تباہ شدہ مکانات کی تعمیر نو اوربحالی کا مشکل ترین مرحلہ بھی شروع ہوگیا ہے جسکے لئے وہ حکومتی امداد کے منتظر ہیں۔
تاہم ابھی تک ذمہ دار محکموں اور اداروں نے سیلاب متاثرین اور ہونے والے مالی نقصانات کا باقاعدہ سروے کا آغاز نہیں کیا ہے، تاہم متاثرین کی بروقت بحالی کیلئے ان متاثرہ گھروں کا سروے اور اسکے لئے ان علاقوں میں غیر جانبدار سروے ٹیموں کو بھیجنا وقت کا اہم تقاضاہے مگر اس سے بھی ضروری وہ اقدامات ہیں جو اس تباہی کا باعث بنے ہیں جس کا ذکر آرمی چیف نے اپنے دورہ سوات کے دوران کیا ہے جس پر سیاسی لوگوں نے آنکھیں بند کرکھی ہیں۔
آرمی چیف نے دورہ سوات کے دوران متاثرین اور ان کےلئےجاری امدادی سرگرمیوں کا تفصیلی جائزہ لینے کے بعد بجا کہاکہ وفاقی اور صوبائی حکومت کو تباہ شدہ مکانات کی بحالی کے سروے کے ساتھ اس بات کی تحقیقات بھی کرنی چاہیے کہ دریاوں اور نالے ندیوں کے راستے کن لوگون بند کرکے اس میں تعمیرات کی ہیں۔ آرمی چیف کا کہنا تھا کہ دریائوں اورندی نالوں کے کنارے غیر قانی آبادیاں کرنے اور غیرقانونی تجاویزات قائم کرنے والوں کے خلاف کاروائی وقت تقاضا ہےبلکہ ان غیر قانونی تعمیرات کی اجازت دینے والوں کے خلاف بھی کاروائی ضروری ہے۔
حقیقت تو یہ ہےکہ ہم نے نہ تو 2005کے زلزلے سےکوئی سبق سیکھا اور نہ ہی 2010کے تباہ کُن سیلاب کت بعد بچاو کیلئے موثر اقدامات اٹھائے ضرورت اس امر کی ہے کہ جن لوگوں نے سلابی ریلے اور دریاوں کے کناروں پر کئی منزلہ گھر، کمرشل پلازے اور ہوٹل تعمیر کئے تھے انہیں کس نے اجازت دی اور کس کی ایماء پر انہوں نے قانون توڑکر آج ہزاروں گھروں کو ملیامٹ کردیا، ہزاروں کو بے گھر کردیا ہے، ملک کو اربوں کا نقصان پہنچایا گیا اور سینکڑوں افراد کی موت کا باعث بنا۔
ابتدائی تخمینہ کے مطابق حالیہ سیلاب نے صوبے میں اربوں روپے کا نقصان ہوا گذشتہ روز وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا محمود خان کو دی جانیوالی بریفنگ میں سیلاب سے ہونیوالی تباہی کا ابتدائی تخمینہ 68ارب روپے بتایا گیا ہے جبکہ بیورو کریسی نے اس خدشے کا بھی اظہار کیا ہے کہ سیلاب سے ہونیوالے نقصانات 100ارب روپے سے زیادہ ہوسکتے ہیں ،ابھی سرکاری اداروں کے اہلکار دور دراز کے ان علاقوں میں شائد نہیں پہنچے جہاں گاوں کے گاوں سیلابی ریلے میں بہہ چکے ہیں۔ اس دوران بتایا گیا ہے کہ سیلاب کی وجہ سے264افراد جان بحق ہوئے جبکہ237 زخمی ہوئے ہیں سیلاب زدہ علاقوں میں 30 ہزار سے زیادہ گھر مکمل طور پر تباہ ہوئے جبکہ 4لاکھ 29 ہزار 765 گھروں کو نقصان پہنچا ہے صوبے کے سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں 1455کلومیٹر سڑکوں کو نقصان پہنچا ہے۔
اسکولوں اور طبی مراکز صحت میں سب سے زیادہ نقصان ڈیرہ اسماعیل خان اور ٹانک کے اضلاع میں ہونے کی رپورٹ ہے۔ سیلاب نے 60 ہزار 752ایکڑ اراضی پر کھڑی فصلوں کو تباہ کرکے رکھ دیا ہے جس سے آنیوالے دنوں میں غذائی مشکلات کے باعث عوام مزید مہنگائی کا سامنا کرنا پڑ سکتاہے۔ اپر لوئر دیر، سوات، اپر اور لوئر کوہستان، چارسدہ، ڈی آئی خان اور ٹانک کےاضلاع کو سیلاب نے بری طرح متاثر کیاہے۔