دُنیا بَھر میں ہر سال بین الاقوامی تنظیم، ’’الزائمرڈیزیز انٹرنیشنل‘‘ کے زیرِ اہتمام 21 ستمبر کو ’’الزائمرکے انسداد کا عالمی یوم‘‘منایا جاتا ہے، جس کا مقصد اس عارضے سے متعلق عوام النّاس تک معلومات کی ترسیل ہے۔ رواں برس اس عالمی یوم کے لیے جس تھیم کا انتخاب کیا گیا ہے، وہ "Know Dementia, Know Alzheimer's" ہے۔
یعنی’’ڈیمنشیا اور الزائمر کو جانیں‘‘۔ دراصل الزائمر کا مرض ڈیمینشیا ہی کی ایک قسم ہے، جو دُنیا بَھر میں عام ہے۔ یہ ایک ایسا ذہنی عارضہ ہے، جس میں دماغ کے خلیات تیزی سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوتے ہیں اور اس کےنتیجے میں مریض بتدریج اپنی ذہنی صلاحیتوں سے محروم ہوتا چلاجاتا ہے۔ دراصل الزائمر میں مضرِ صحت دماغ کے جس حصّے میں جم جاتا ہے، وہاں کے اعصابی خلیات، جو طبّی اصطلاح میں نیورونز (Neurons) کہلاتے ہیں، مُردہ ہوجاتے ہیں۔
نتیجتاً دماغ متعلقہ جگہ سے سکڑ نا شروع جاتا ہے۔ یہ مرض زیادہ تر دماغ کے جس حصّے کو متاثر کرتا ہے، وہ طبّی اصطلاح میںHippocampus کہلاتا ہے اور یہی وہ حصّہ ہے، جو یادداشت اور سوچ بچار کا کام انجام دیتا ہے۔ الزائمر کی تشخیص ایک مشکل امر ہے، کیوں کہ دماغ میں رفتہ رفتہ تبدیلیاں واقع ہورہی ہوتی ہیں ،جب کہ علامات ظاہر ہونے سے کئی ماہ قبل دماغ کے نیورونز مَر چُکے ہوتے ہیں اور متعلقہ جگہ سکڑنا شروع ہو جاتی ہے۔ تاہم، مرض مذمن (Chronic) ہونے کی صُورت میں ایم آر آئی (Magnetic Resonance Imaging) کے ذریعے امکانی تشخیص ممکن ہے۔
سال2020ء میں کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق ہمارے دماغی خلیات میں ٹاؤ پروٹین(Tau Protein) پایا جاتا ہے، جس کے ذریعے ہم مستقبل میں دماغ کو پہنچنے والے کسی بھی قسم کے نقصان یاالزائمر لاحق ہونے کا تعیّن کرسکتے ہیں کہ دونوں ہی صُورتوں میں دماغ کا یہی حصّہ متوّرم ہوتا ہے۔
واضح رہے، صحت مند دماغ کے خلیات میںMicroglia نامی سیل کا کام دماغ میں داخل ہونے والےمضر مادّے تلف کرنا ہے۔ یہ مرض تب پنپتا ہے، جب دماغ کی کارکردگی سُست پڑ جاتی ہے۔ ہمارے دماغ کی ایک جین، جو ٹی آر ای ایم 2 (Triggering receptor expressed on myeloid cells2) کہلاتی ہے، وہ دماغ کو پیغام بھیجتی ہے کہ جلد از جلد بیٹا۔ امیلائیڈ پلاکس (Beta-Amyloid Plaques) سے چھٹکارا حاصل کیا جائے اور یہی امر متعلقہ جگہ کا ورم کم کرنے کا سبب بنتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ ’’یہ وَرم کیوں ہوتا ہے؟‘‘ تو اگرٹی آر ای ایم 2 کسی بھی سبب اپنا کام درست طریقے سے انجام نہ دے، تو Microglia کی کارکردگی سُست پڑ جاتی ہے، نتیجتاً دماغ میں کیمیکلز کی ایک تہہ جم جانے کے باعث یہ مخصوص حصّہ متوّرم ہو جاتا ہے۔ محققین کا کہنا ہے کہ الزائمر لاحق ہونے سے قبل دماغ میں کچھ مخفی سی تبدیلی واقع ہوتی ہے، جو آگے چل کر اس بیماری کی وجہ بن جاتی ہے۔ اس کا ایک سبب دماغ میں خون فراہم کرنے والی نالیوں میں تنگی یا ان میں رکاوٹ پیدا ہونا بھی ہو سکتا ہے۔ واضح رہے، دماغ میں جہاں خون کی ترسیل میں کمی دماغی کارکردگی متاثر کرنے کا سبب بنتی ہے، وہیں الزائمر رگوں کی ہیئت کو مزید نقصان پہنچانے کا باعث بنتا ہے، جب کہ ڈیمینشیا سے دماغ کو مختلف قسم کا نقصان پہنچتا ہے۔
اس میں دماغ کے فرنٹل لوب (Frontal Lobe) یا اطراف کے Temporal Lobes متاثر ہونے کے نتیجے میں پہلے رویّے اور بعدازاں گفتگو میں چھوٹی چھوٹی تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں یا پھر یہ دونوں یعنی رویّہ اور گفتگو ایک ساتھ متاثر ہوجاتے ہیں۔ بعض کیسز میں صرف یادداشت متاثر ہوتی اور بعض میں دونوں کیفیات ایک ساتھ ظاہر ہوجاتی ہیں۔ اس کے برعکس الزائمر میں دماغ کی تہہ Cerebral Cortex متاثر ہوتی ہے۔ اس کے ابتدائی درجے میں حال کی باتیں، واقعات یاد نہیں رہتے، مگر زمانۂ ماضی کی باتیں، واقعات یاد ہوتے ہیں۔
بعدازاں، مریض کی روزمرّہ کارکردگی متاثر ہونے لگتی ہے، مثلاً اپنے قریبی رشتے داروں، عزیز و اقارب، دوست احباب کے نام بھولنا، لوگوں سے لاتعلق ہو جانا، گفتگو میں روانی اور ذخیرۂ الفاظ میں کمی،چیزیں رکھ کر بھول جانا، بلامقصد، خاص طور پر رات کے اوقات میں اِدھر اُدھر گھومتے رہنا، راستے بھول جانا، یہاں تک کہ گھر کا پتا تک یاد نہیں رہتا، نیند مشکل سے آنا، جگہ اور وقت کا تعیّن نہ کر پانا، اُداس یا افسردہ رہنا، ماحول اور گردوپیش سے لاتعلق ہوجانا، بول و برازپر کنٹرول نہ رہنا، شخصیت اور رویّے میں تبدیلی، بات، بے بات غصّہ، ڈیپریشن، شک، وہم کرنا اور جو اشیاء حقیقتاً موجود نہ ہوں، اُن کا دکھائی دینا وغیرہ۔مرض شدید ہونے کی صُورت میں جسمانی کارکردگی بھی متاثر ہونے لگتی ہے۔ مثلاً مریض کو اکثر کھڑے رہنے یا چلنے پِھرنے میں دشواری پیش آتی ہے،جب کہ گرنے اور لڑکھڑانے جیسی علامات بھی ظاہر ہوسکتی ہیں۔
مرض لاحق ہونے کی کوئی حتمی وجہ نہیں۔ تاہم، اب تک کی جانے والی تحقیقات کے مطابق مرکزی اعصابی اور دیگر جسمانی نظام میں گڑبڑ یا بے ترتیبی، بُلند فشارِ خون، دِل کی شریانوں کے عوارض اور کولیسٹرول کی مقدار میں اضافے کے باعث یہ بیماری لاحق ہوسکتی ہے۔ اس کے علاوہ ڈاؤن سینڈروم سے متاثرہ بعض افرادبھی چالیس سال کی عُمر تک پہنچنے سے قبل الزائمرکا شکار ہوجاتے ہیں۔
نیز، 70سال کی عُمرکے بعد موروثی عوامل،ماضی میں لگنے والی سَر یا دماغ کی کوئی چوٹ ،دماغ میں رسولی، بعض امراض جیسے پارکنسنز، مِرگی، رفتہ رفتہ یادداشت برقرار نہ رہنے کے ساتھ الفاظ بھولنے کا مرض (pick's disease)، بتدریج جسم و ذہن کا فعال نہ رہنا(Huntington's disease) اور پیدایشی طور پر ہاتھ پاؤں ٹیڑھے ہونا بھی اسباب بن سکتے ہیں۔ نیز، بعض افراد ہارٹ اٹیک کے بعد الزائمر کا بھی شکار ہو جاتے ہیں۔
مرض کی تشخیص کے لیے مریض یا رشتے داروں سے تفصیلی معلومات کا حصول اور میڈیکل ہسٹری نہایت اہمیت کے حامل ہیں۔ الزائمر کے علاج کے لیے ایسی مؤثر ادویہ دستیاب ہیں، جن کے استعمال سے مریضوں کے لیے روزمرّہ زندگی کے معاملات آسان بنائے جاسکتے ہیں۔ تاہم، ڈاکٹر کے مشورے کے بغیر یہ ادویہ ہرگز استعمال نہ کی جائیں۔ چوں کہ مریضوں کی یادداشت متاثر ہونے کے ساتھ ان کی سماجی سرگرمیاں بھی متاثر ہوجاتی ہیں، تو اہلِ خانہ اور عزیز و اقارب کایہ فرض بنتا ہے کہ مریض کو اس کی تمام تر ذہنی تبدیلیوں کے ساتھ قبول کرکے حُسنِ سلوک کا مظاہرہ کریں۔ (مضمون نگار، ڈائو یونی ورسٹی اور بقائی میڈیکل یونی ورسٹی، کراچی سے بطور اسسٹنٹ پروفیسر وابستہ رہ چُکے ہیں)