اسلام آ باد (تبصرہ / رانا غلام قادر ) پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان نے ایک بار پھر یو ٹرن لے لیا ہے۔
انہوں نے ملکی اور بیرونی سازش کے بیانیہ سے اچانک پلٹا کھا یا ہے۔ وہ اپنی حکومت کو گرانے کی سازش کا الزام امریکی حکومت اور پا کستان کی عسکری قیادت پر لگاتے رہے ۔
اب 24 گھنٹوں میں نہ صرف امریکی سفارتکاروں سے ملاقاتیں کر رہے ہیں بلکہ چاہتے ہیں کہ موجودہ عسکری قیادت نئی حکومت کے منتخب ہونے تک کام جاری رکھے ۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ مو جودہ سیا سی قیادت پر منصفانہ اور آ زادانہ انتخابات کے انعقاد پر یقین رکھتے ہیں ۔
انہوں نے موجودہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو توسیع دینے کی تجویز دے کر ایک بار پھر آرمی چیف کی تقرری کے حساس معاملہ کو متنازعہ بنا نے اور نیا رنگ دینے کی کوشش کی ہے۔
ایک نجی ٹی وی کو انٹرویو میں عمران خان نے امریکہ مخالف بیانیہ اور اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیہ دونوں سے یو ٹرن لے کر سب کو حیران کردیا ہے۔ وہ اب تک اپنی حکومت کو گرانے کا الزام ایک جانب اسٹیبلشمنٹ پر لگاتے رہے ہیں اور د وسری جانب امریکہ پر ۔ اسی بنیاد پر انہوں نے امپورٹڈ حکومت کا نعرہ لگا یاتھا۔کچھ عرصہ سے انہوں نے اپنے جلسوں میں امریکہ پر تنقید بند کردی تھی۔
لیکن اب بلی تھیلے سے باہر آ گئی ہے اور انہوں نے کھل کر یوٹرن لیتے ہوئے امریکہ مخا لف پالیسی ترک کردی ہے اورکہ دیا ہے کہ میں میں امریکا مخالف نہیں ہوں۔عمران خان نے کہا ہے کہ میرے ڈونلڈ ٹرمپ سے بڑے اچھے تعلقات تھے، میرا امریکا سے کوئی مسئلہ نہیں۔ باہمی احترام پر امریکا سے تعلقات چاہتا ہوں۔
واشنگٹن کے ساتھ تعلقات اچھے ہونے چاہئیں۔ امریکا میں ہماری بڑی طاقتور کمیونٹی ہے۔ امریکا کے ساتھ اچھے تعلقات چاہتا ہوں۔اب عمران خان کو یہ احساس ہوگیا ہے کہ امریکہ کی مخالفت کی انہیں بھاری قیمت چکانی پڑے گی اسلئے وہ راہ راست پر آگئے ہیں ۔
دوسری جانب انہوں نے یہ کہ کر سب کو حیران کردیا کہ نئے آرمی چیف کا معاملہ نئی حکومت آنے تک مؤخر کردینا چا ہئے۔شہبازشریف پر تنقید کرتے ہوئے عمران خان کا کہنا تھا کہ 85 سیٹوں والا مفرور کیسے آرمی چیف سلیکٹ کر سکتا ہے؟ یہ لوگ بیرونی سازش کے تحت آئے، اگر یہ ووٹ کے ذریعے مینڈیٹ لیکر آئیں تو سلیکٹ کر سکتے ہیں، نئی حکومت کے منتخب ہونے تک آرمی چیف جنرل قمر باجوہ کوعہدے پر توسیع دی جائے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ عمران خان کی پارٹی کے سوشل میڈیا ونگ نے آرمی چیف کے خلاف منفی پراپیگنڈہ کیا۔ انہوں نے نیوٹرلز ‘ میر جعفر ‘ میر صادق اور ہینڈلرز جیسے قابل اعتراض اور افسوسناک ریمارکس دیے ۔ پھر جلسوں میں آرمی چیف کی تقرر ی کو زیر بحث لاکر اسے متنازعہ بنا نے کی کوشش کی تاہم انہوں نے اسی انٹر ویو میں یہ بھی کہا کہ اچھی بھلی حکومت کو گرانے میں جو بھی لوگ شامل ہیں انہوں نے پاکستان کے ساتھ بہت بڑی غداری کی۔سوال یہ ہے کہ انہوں نے غداری کا سنگین الزام کس پر لگایا ہے۔
عمران دراصل چومکھی لڑائی لڑ رہے ہیں لیکن لڑائی سے اپنا سیا سی فائدہ بھی حاصل کرنا چاہتے ہیں جس کیلئے انہوں نے اچانک یہ نیا کارڈ کھیلا ہے۔اس سے قبل ڈی جی آئی ایس پی آر کہ چکے ہیں کہ مو جودہ آرمی چیف توسیع نہیں لیں گے اسلئے اس معاملہ کو سیا سی رنگ نہ دیا جا ئے ۔ آرمی چیف جنرل قمر جا وید با جوہ 29نومبر 2022کو ریٹائر ہوں گے۔
عمران خان کو تین ماہ پہلے یہ بحث نہیں چھیڑ نی چاہئے ۔ملک و قوم اور ادارے کا مفاد اسی میں ہے کہ آرمی چیف کی تقرری کا عمل اپنے وقت پر اور قانون و آئین کے مطابق انجام پائے اور اس پر پبلک ڈ یبیٹ نہ کی جا ئے۔عمران خان نے ایک اور یو ٹرن یہ لیا ہے کہ میں الیکشن پر بات کرنے کیلئے تیار ہوں۔ اس سے قبل وہ کہتے تھے کہ ان چوروں اور ڈاکوئوں کے ساتھ کیسے بیٹھوں ۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ مو جودہ سیا سی قیادت ملک میں آ زادانہ اور منصفانہ الیکشن کرانے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ اگر ا س حکومت سے بات ہی کرنی ہے تو قومی اسمبلی سے مستعفی ہو نے کی کیا ضرورت تھی پھر تو سب سے بہتر یہ تھا کہ اپو زیشن لیڈر کے آئینی عہدہ کو ہاتھ سے نہ جانے دیتے ۔
عمران نے پھر اسٹیبلشمنٹ پر الزام لگایا کہ اسٹیبلشمنٹ نے گارنٹی دی تھی لیکن چیف الیکشن کمشنر ہمارے خلاف کوئی موقع نہیں چھوڑتا، دھندلی سے راولپنڈی، مظفر گڑھ کی سیٹ ہمیں ہرا دی گئیں، ای وی ایم مشین کو چیف الیکشن کمشنر نے سبوتاژ کیا، ملک میں اگر شفاف الیکشن کرانا ہے تو ووٹنگ مشین سے کرانے ہونگے، چیف الیکشن کمشنر نے ووٹنگ مشین کی کھل کرمخالفت کی۔
اس طرح انہوں نے چیف الیکشن کمشنر پر پھر الزامات لگا دیے جنہوں نے توہین کے الزام میں انہیں 27ستمبر کو طلب کرلیا ہے۔ بہر حال اب یوں لگتا ہے کہ عمران خان نے احتجاجی تحریک کی بجائے پاور کوریڈورز سے مذاکرات کا بیک ڈور چینلز کا آپشن اختیار کر لیا ہے۔