کراچی (ٹی وی رپورٹ) امریکی سائفر سے متعلق پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان اور اعظم خان کی آڈیو لیک پر گفتگو کرتے ہوئے سینئر اینکر و تجزیہ کار حامد میر کا کہنا ہے کہ وزیراعظم کا دفتر انتہائی غیر محفوظ ہے.
عمران خان نے سیاسی مفاد کیلئے ملکی مفاد کو دبائو پر لگایا، آڈیو کی تحقیقات ہونی چاہیے، انصار عباسی نے کہا کہ خطرناک بات یہ ہے کہ آ پ نے غلط جھوٹا بیانیہ بنایا اس جھوٹے بیانئے کی بنیاد کے اوپرآپ نے اپنی اسٹیبلشمنٹ پر الزامات عائد کئے.
شاہزیب خانزادہ نے کہا کہ عمران سیاسی بیانیہ بنانے کیلئے پاکستان کی خارجہ پالیسی کو دائو پر لگا دیا،منیب فاروق نے کہا کہ اس آڈیو میں نیا کچھ سوائے اسکے عمران خان اس معاملے پر کھیلنا چاہتے تھے،مظہر عباس نے کہا کہ ہر لیک پر مخالف جشن مناتا ہے،یہ کوئی نہیں سوچ رہا ہے اسکے پیچھے کون ہے۔
ان خیالات کا اظہار انہوں نے جیو نیوز کی خصوصی نشریات میں گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ حامد میرنے کہا کہ وزیراعظم کا دفتر انتہائی غیر محفوظ ہے اور وہاں پر عمران خان موجودتھے تو ان کی گفتگو ڈارک ویب پر آگئی ہے اور شہباز شریف کی بھی آگئی ہے اس کے علاوہ اور کیا کیا چیزیں آنے والی ہیں۔اب عمران خان کا جو مطالبہ ہے کہ اس کی انکوائری ہونی چاہئے ۔
انکوائری یہ ہونی چاہئے کہ عمران خان اور اعظم خان انہوں نے اس میں جو کھیل کھیلاتو اس کھیل میں اور کون کون شامل ہوا۔اعظم خان اور عمران خان دونوں کو قوم کو جواب دینا چاہئے ۔
عمران خان کا جو مطالبہ ہے کہ اس پر انکوائری ہونی چاہئے میں سمجھتا ہوں کہ اس پر عملدرآمد ہونا چاہئے اس کی انکوائری ہونی چاہئے۔ ان دونوں سے بھی ا س معاملے پرپوچھا جانا چاہئے کہ آپ دونوں نے جو یہ کھیل کھیلا ہے اپنے سیاسی مفاد کے لئے پاکستان کا مفاد داؤ پر لگایاآپ یہ کس طرح کرسکتے ہیں۔میری اطلاع یہی ہے کہ تحقیقاتی اداروں کو یہ پتہ چل چکا ہے کہ یہ ساری جو آڈیو لیکس ہیں ان کو ڈارک ویب پر پہنچانے والے سہولت کار کون ہیں۔
اس سلسلے میں جب تفصیلات سامنے آئیں گی تو جس شعبے سے میرا اور آپ کا تعلق ہے ہوسکتا ہے اس شعبے کے کچھ لوگوں کے نام بھی آجائیں۔ میرا اشارہ میڈیا انڈسٹری کی طرف ہے جنہوں نے کہ اس میں سہولت کار کا رول ادا کیا ہے۔آج قومی سلامتی کمیٹی کی میٹنگ ہے اس میں یہ ساری تفصیل نہیں رکھی جائے گی البتہ وزیراعظم کو علیحدگی میں بتا دیا جائے گا۔
آنے والے دنوں میں پاکستان کے کچھ اور سیاستدانوں کی آڈیو ز اور ویڈیوز سامنے آسکتی ہیں۔ منیب فاروق نے کہا کہ اس آڈیو میں نیا کچھ نہیں ہے سوائے اس کے کہ عمران خان اس معاملے کے اوپر کھیلنا چاہتے تھے ۔ انہوں نے کہا کہ اس کے اوپر امریکا کا نام نہیں لینا اور ہم اس کے اوپر کھیلتے ہیں ۔
اعظم خان جو اس وقت کے پرنسپل سیکریٹری تھے وہ انہیں مشورے دے رہے ہیں۔منٹس تو میرے ہاتھ میں ہیں جیسے بھی لکھنے ہیں جو بھی کرنا ہے اس کو ہم نے کس طرح سے استعمال کرنا ہے۔عمران خان نے ایک ایسے معاملے کو جس کا سیاست سے تعلق نہیں ہے اسے زبردستی سیاست میں گھسیٹا۔اس کے بعد عمران خان ایک قدم اور آگے گئے انہوں نے پاکستان کی فوج کے سربراہ کو اس میں گھسیٹاان کو مختلف نام دیئے۔
پاکستان موجودہ فوجی قیادت کو اپنے فالورز اور سپورٹرز کے سامنے ذمہ دار ٹھہرایاکہ انہوں نے سازش کرکے اس حکومت کو مسلط کروایا۔ ڈائریکٹر جیو نیوز رانا جواد نے کہا کہ یہ سب کے لئے بڑی پریشان کن بات ہے میں نہیں سمجھتا کہ یہ معمولی آڈیو لیکس ہے ۔یہ انتہائی سنجیدہ اور بہت ہی نقصان دہ ہے ان چیزوں کے اثرات ہوں گے ۔
عمران خان نے جب یہ بیانیہ بنایا تھا تو وہ پاکستان کے وزیراعظم تھے اور انہوں نے کہا تھا کہ امریکا نے سازش کی ہے اور سازش کے ثبوت ہیں۔ ا ب جو آڈیو لیکس آئی ہے تو سنا جارہا ہے کہ بنیادی طور پر یہ ان کی اپنی اختراع تھی کہ اس کو سازش کے طور پر پیش کیا جائے۔ کسی نے ان کو مشورہ نہیں دیا یہ نہیں سمجھایا کہ آپ وزیراعظم ہیں آپکے منہ سے ایسی باتیں نکلنا پاکستان اور امریکا کے تعلقات کو خراب کریگا۔دنیا بھر میں جو ہمارے سفیر کام کرتے ہیں انکے امیج کو نقصان پہنچا۔سابق وزیراعظم عمران خان کی پوری سیاسی تحریک کی بنیاد حقیقی آزادی ہے اسی سائفر کے اوپر انہوں نے انہوں نے اپنا سب کچھ انحصار کیا۔
اسی سائفر کو بنیاد بناکر انہوں نے کہا کہ میں حقیقی آزادی کی جنگ لڑنے جارہا ہوں ۔ آپ نے اندرونی طور پر تو یہ مصالحہ بیچ دیا لیکن پاکستان کا دنیا میں کیا امیج گیا ہے ۔ مظہر عباس نے کہا کہ مجموعی طور پر ان تمام لیکس کو آپ پاکستان لیکس کہہ سکتے ہیں ان تمام لیکس سے پاکستان کو نقصان پہنچ رہا ہے۔
وزیراعظم ہاؤس اگر محفوظ نہیں ہے تو وزیراعظم کیسے محفوظ ہوسکتا ہے۔آپ کتنے کمزور ہوگئے ہیں کہ آپ کے ملک کا چیف ایگزیکٹو چاہے وہ کل عمران خان ہوں آج شہباز شریف ہوں وہ غیر محفوظ ہیں ان کی گفتگوغیر محفوظ ہوگئی ہے۔ ہو یہ رہا ہے کہ جب کسی کی لیکس آتی ہے تو مد مقابل جشن مناتا ہے۔
یہ کوئی نہیں سوچ رہا ہے کہ اس کے پیچھے کون لوگ ہیں یہ چیزیں کیوں ہوئیں کیسے ہوئیں۔ان چیزوں سیکورٹی اداروں کو بہت سنجیدگی سے لینا چاہئے حکومت کو بہت سنجیدگی سے لینا چاہئے ۔سب سے بڑی بات یہ کہ پاکستان کے سیاستدانوں کو اس کو بہت سنجیدگی سے لینا چاہئے کہ وہ کہاں آکر کھڑے ہوگئے ہیں۔
سینئراینکر و تجزیہ کار ،شاہزیب خانزادہ نے جیو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ بہت اہم بات ہے کہ یہ آڈیو لیکس نہیں ہونی چاہئیں۔ وزیراعظم بھی کہہ رہے تھے کہ کون پاکستان میں ملنے آئیگا اگر اس طرح گفتگو لیکس ہوں گی۔
عمران خان کا جب اقتدار جارہا تھا توسیاسی بیانیہ بنانے کیلئے پاکستان کی خارجہ پالیسی پاکستان کے جو امریکا کے ساتھ تعلقات ہیں مغرب کے ساتھ تعلقات ہیں انکو داؤ پر لگا دیا۔ ایسی کوئی سازش نہیں تھی ایک سائفر آیا تھا اس میں ایک سفارتی لینگویج تھی جو سخت تھی۔ جس سفارت کار نے وہ سائفر بھیجا تھا انہوں نے بھی کہا تھا کہ ہمیں ڈیمارچ کرنا چاہئے جس کا اس آڈیو لیکس میں ذکر بھی ہورہا ہے۔
سلیم صافی نے جیو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ایک بات پر عمران خان کو خراج تحسین پیش کرنا چاہئے اور دوسری پر انکے فالورزکی عقل پر ماتم کرنا چاہئے۔ عمران خان کو اس بات پر خراج تحسین پیش کرنا چاہئے کہ وہ یکسر سراسر جھوٹ گڑھ لیتے ہیں اور اس کو اتنے حوصلے اور اعتماد کے ساتھ بار بار پیٹنے لگتے ہیں کہ لوگ اس کو سچ ماننے لگ جاتے ہیں۔ انصار عباسی نے کہا کہ اعظم خان اور عمران خان کی جس قسم کی بات چیت ہورہی ہے یہ کس قسم کا ملکی مفاد ہے ۔