• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دور بہت دور، شہر سے دور، ایک ہرا بھرا، خوبصورت اور پرسکوں جنگل تھا۔ اس جنگل کے بیچوں بیچے ایک بہت حسین چھوٹی سی جھیل تھی۔ اس جھیل کا پانی اتنا صاف اور شفاف تھا کہ اس کی تہہ میں اُگے ہوئے پودے اور گھاس تک صاف نظر آتے تھے۔ جھیل کی تہہ میں پڑے ہوئے پتھر بہت خوبصورت اور چمکیلے تھے۔ اس کی مچھلیاں اتنے پیارے رنگوں کی تھیں کہ جو دیکھتا دنگ رہ جاتا۔ جھیل کا پانی اتنا میٹھا تھا کہ جو ایک دفعہ پی لے بس وہیں کا ہوجائے۔

جھیل کے چاروں طرف گھنے اور اونچے اونچے درخت تھے جو ہوا میں اس طرح جھومتے تھے جیسے وہ جھیل کو دیکھ کر خوش ہو رہے ہوں۔ ان درختوں کے نیچے پودے اُگے ہوئے تھے جن پر طرح طرح کے رنگ برنگے پھول کھلتے تھے۔ ان پھولوں پر تتلیاں ناچتیں، بھونرے آتے، کیڑے مکوڑے اور مینڈک بھی وہاں خوشی خوشی رہتے تھے۔ درختوں پر پیارے پیارے پرندوں کا بسیرا تھا۔

جھیل اور جنگل کی ہوا بہت صاف اور صحت بخش تھی۔ جنگل کے درندے اور چرندے بھی وہاں پانی پینے آتے تھے تو اس کی خوبصورتی، سکون اور صاف اور میٹھے پانی سے اتنے متاثر ہوتے کہ وہیں کے ہو جاتے۔

یہ جنگل، یہ جھیل، اس کا پانی، اس کی ہوا، پودے، پرندے، پھول، کیڑے مکوڑے، مچھلیاں درخت اس کے پتھر اور اس کے جانور، یہ سب اس جھیل اور جنگل کے ماحول کا حصہ تھے۔ یہ ماحول ہماری دنیا کے لئے اور دنیا کے تمام انسانوں کے لئے ایک نعمت تھا۔ لیکن پھر پتا ہے کیا ہوا؟ کس طرح انسانوں کو اس جھیل کے بارے میں پتا چل گیا اور انسانوں نے وہاں جانا شروع کردیا۔ جو لوگ شروع شروع میں وہاں گئے وہ بہت اچھے لوگ تھے۔ انہوں نے نہ تو جھیل کو گندا کیا، نہ پھول توڑے اور نہ پرندوں کا شکار کیا۔ وہ لوگ جھیل پر جاتے، اس کی خوبصورتی، سکون اور اس کی صاف و شفاف اور صحت بخش ہوا سے لطف اٹھاتے اور واپس آجاتے۔

جلد ہی دور دور تک اس کی شہرت پھیل گئی اور ہزاروں لوگ وہاں پہنچنے لگے۔ اول تو ان کی گاڑیوں اور بسوں کا دھواں وہاں کی ہوا کو گندا کرنے لگا، پھر لوگوں نے وہاں گندگی بھی پھیلانی شروع کردی۔ کھانے پینے کی بچی ہوئی چیزیں اور کچرا ادھر ادھر پھینک دیتے۔ جھیل کے پانی میں طرح طرح کی چیزیں پھینکتے، مچھلیاں پکڑتے، پرندوں کا شکار کرتے، پھول توڑتے ، کھانا پکانے کے لئے گھاس، پتے اور درختوں کی ٹہنیاں جلاتے، جس کا دھواں بھی ہوا میں شامل ہو جاتا تھا۔ انہیں پتا نہیں تھا کہ وہ کتنی بڑی بے وقوفی کر رہے ہیں۔

اس ساری گندگی نے ماحول کو تباہ کردیا۔ صاف ہوا صاف نہ رہی۔ جھیل کا صاف اور میٹھا پانی کالا اور بدمزہ ہوگیا۔ تہہ میں پڑے ہوئے رنگین پتھر بھی کالے اور بدصورت ہوگئے۔ مچھلیاں مرنے لگیں۔ پرندے دوسرے علاقوں کو پرواز کر گئے۔ جانور دوسرے جنگل میں چلے گئے۔ تتلیاں غائب ہوگئیں۔ پودے اور سبزہ ختم ہوگیا۔ درختوں کے کٹنے سے مٹی ہوا میں اڑنے لگی۔ اس طرح ایک حسین جھیل اور پیارا ماحول برباد ہوگیا۔

جانتے ہو اس ساری آلودگی کا نتیجہ کیا نکلا؟ بارشیں ہونا بند ہوگئیں، کیوں کہ درختوں کے کٹنے سے بارش کم ہوجاتی ہے اور پھر آہستہ آہستہ پورے علاقے میں فصلیں تباہ ہوگئیں۔ کھیت سوکھ گئے۔ لوگ غریب ہوگئے۔ ان کے پاس کھانے کو اناج بھی کم رہ گیا۔ اب تو لوگ بہت گھبرائے اور سوچنے لگے کہ یہ کیا ہوا؟ اور کیسے ہوگیا؟

ادھر جنگل کے بچے کھچے پرندے اور جھیل کی مچھلیاں بھی چپکے چپکے روتے تھے اور اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے تھے کہ ہمارے جنگل دوبارہ ا’گادے، ہماری جھیل کا پانی صاف کردے، بارش برسا دے اور ان انسانوں کو اتنی عقل عطا فرمادے کہ وہ اپنے ماحول کی ساری آلودگیاں ختم کردیں۔

آخر کچھ عقل مند لوگوں نے اس مسئلے پر غور کیا اور اس نتیجے پر پہنچے کہ یہ سب ان ہی کی غلطی سے ہوا ہے، تب انہوں نے اعلان کیا کہ کوئی بھی درخت نہ کاٹے، اس کے بعد سب نے فیصلہ کیا کہ ہر آدمی ایک درخت لگائے گا۔ لوگوں نے درخت لگائے۔ پودوں اور گھاس کی دیکھ بھال کی۔

آخر اللہ تعالی کو ان پر رحم آیا اور ایک روز بارش ہوئی۔ جھیل میں صاف پانی آگیا۔ پودے اور درخت دوبارہ اگنے لگے، لیکن آلودگی سے ماحول کو جو نقصان ہوتا ہے وہ اتنی جلدی اور آسانی سے پورا نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ جھیل ابھی تک پہلے کی طرح خوبصورت، صاف اور صحت بخش نہیں ہوسکی، لیکن اب وہاں کے لوگ اس کے ماحول کو بچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اور شاید ایک دن جھیل پھر اتنی ہی خوبصورت ہوجائے، اس کا پانی پہلے کی طرح صاف اور شفاف اور میٹھا ہوجائے۔

آپ بھی اس کے لیے دعا کریں اور اگر آپ کے گھر کے پاس کوئی جھیل، کوئی درخت، پودے یا سبزہ ہے تو اس کو بچانے کی کوشش کریں۔ ہماری دنیا کو اس کی بہت ضرورت ہے۔