• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

صدقاتِ واجبہ اور نافلہ کا ادارے کے کارکنوں کے لیے استعمال

آپ کے مسائل اور اُن کا حل

سوال:۔1-ادارے کا ایک استاد مدرسے کے مقرر کردہ اصول کے مطابق ایک خاص مقدار کی تنخواہ کا مستحق ہے، لیکن وہ مقدار اس کی ضرورت کے لیے ناکافی ہے، تو کیا ادارہ اس کی ضرورت کے پیشِ نظر اس کی خدمت سے زیادہ تنخواہ دے سکتا ہے یا نہیں؟

2- مدرسے کی مختلف مدات ہیں، مثلاً فیس، زکوٰۃ، صدقات وغیرہ، تو اساتذۂ کرام کی تنخواہیں اور خرچ وخوراک کس مد میں سے دے سکتے ہیں؟ اور اگر وہ مد کم پڑ جائے تو دوسری مد سے دینے کی کیا صورت ہو سکتی ہے؟

3- طلبہ کی ضرورت سے زیادہ خوراک، اساتذہ استعمال کر سکتے ہیں؟

جواب:- 1۔ اگر مذکورہ مدرسے کے ضرورت مند استاد کی تنخواہ مدرسے کے مقرر کردہ اصولی مقدار سے زیادہ مقرر کر دی جائے تو جائز ہے، کیوں کہ استاد کے ساتھ اجارہ کا معاملہ ہے، اور اجارہ میں جانبین کی رضامندی سے اجرت کی کوئی بھی مقدار متعین کی جا سکتی ہے، اگر مذکورہ استاذ کو مقرر کردہ تنخواہ سے ہٹ کر اضافی رقم دینا چاہیں تو زکوٰۃ اور صدقاتِ واجبہ سے دینا جائز نہیں ہے، البتہ صدقاتِ نافلہ اور طلبہ سے وصول کی گئی فیس کی رقوم سے دینا جائز ہے۔

2- زکوٰۃا ور صدقاتِ واجبہ (نذر، کفارہ، فدیہ، صدقۂ فطر) کی ادائیگی کے لیے ضروری ہے کہ کسی مستحق کو بلا عوض مالک و مختار بنایا جائے، جب کہ صدقاتِ نافلہ کے لیے نہ مستحق کو دینا ضروری ہے، اور نہ ہی بلا عوض مالک بنانا لازمی ہے، لہٰذا اساتذۂ کرام کی تنخواہیں اور خور و نوش کا انتظام زکوٰۃ اور صدقاتِ واجبہ (نذر، کفارہ، صدقۂ فطر) کی رقم سے کرنا جائز نہیں ہے، کیوں کہ اساتذہ کی تنخواہیں ان کی خدمات کا عوض ہیں، جب کہ صدقاتِ واجبہ ا ور زکوٰۃ کی ادئیگی کے لیے بلاعوض کسی مستحق کو مالک بنانا لازم ہے، اسی طرح اساتذہ کا خرچ ا ور خوراک اگرچہ ان کی خدمات کی اجرت نہیں ہے، تاہم انہیں دینے کی وجہ ان کی خدمات و منافع کا حصول ہی ہے جو کہ ایک گونہ منفعت ہے، جب کہ صدقاتِ واجبہ کا حکم یہ ہے کہ اسے مستحق کو کوئی منفعت حاصل کیے بغیر مالک بنانا ضروری ہے،البتہ طلبہ سے وصول کی گئی فیس اور صدقاتِ نافلہ کی رقوم سے اساتذہ کی تنخواہیں اور خور و نوش کا انتظام کیا جا سکتا ہے۔

3-طلبہ کے اخراجات میں احتیاط کرتے ہوئے مدرسے میں طلبہ کو جتنے کھانے کی ضرورت ہوتی ہے اتنا کھانا تیار کرنا چاہیے، زائد ضرورت کھانا بنانا ہی نہیں چاہیے، اگر کبھی باوجود احتیاط برتنے کے طلبہ کرام کا کھانا بچ جاتا ہے تو اگر صدقاتِ نافلہ یا طلبہ سے وصول کی جانے والی فیس کی رقوم سے تیار کیا جاتا ہے تو اساتذہ کے لیے طلبہ کی ضرورت سے زیادہ کھانا استعمال کرنا جائز ہے، اور اگر زکوٰۃ یا صدقاتِ واجبہ کے اموال سے تیار کیا جاتا ہے تو صرف مستحقِ زکوٰۃ اساتذہ اپنی ملک میں لینے کے بعد کھا سکتے ہیں، اور جو اساتذہ مستحقِ زکوٰۃ نہیں ہیں ان کے لیے وہ کھانا کھانا جائز نہیں ہے، اور خرید و فروخت بھی جائز نہیں، کیوں زکوٰۃ کی چیزوں کی خرید و فروخت کرنا جائز نہیں ہے۔