• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

سہ فریقی کرکٹ، مڈل آرڈر کی ناکامی کا سلسلہ رک نہ سکا

ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ سے قبل پاکستانی ٹیم نے نیوزی لینڈ کے تین قومی ٹورنامنٹ میں بنگلہ دیش اور میزبان نیوزی لینڈ کو شکست دے کر فائنل کے لئے راہ ہموار کر لی۔ پاکستانی ٹیم جب نیوزی لینڈ پہنچی توکچھ سابق کرکٹرز اور بعض ماہرین اس ٹیم کے بارے میں اچھی رائے نہیں دے رہے تھے۔لیکن بنگلہ دیش کو 21 رنز اور نیوزی لینڈ کو چھ وکٹ سے شکست کے بعد پاکستانی ٹیم نے سب کو غلط ثابت کردکھایا،دونوں فتوحات میں محمد رضوان اور بابر اعظم کی بیٹنگ نے مرکزی کردار ادا کیا۔ بنگلہ دیش کے خلاف رضوان اور نیوزی لینڈ کے خلاف بابر اعظم پلیئر آف دی میچ قرار پائے، بولروں نے ہمیشہ کی طرح اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔

شاہین شاہ آفریدی،نسیم شاہ اور محمد حسنین کی عدم موجودگی میں حارث روف، محمد وسیم ،محمد نواز اور شاداب خان نے اچھی پر فارمنس دے کر انگلینڈ کی سیریز کی ناکامیوں کا ازالہ کردیا۔ انگلینڈ کی سیریز میں پاکستان کو چار تین سے شکست ہوئی لیکن میڈیا نے ہار پر اس قدر تنقید کی کہ رمیز راجا ٹیم کے دفاع میں سامنے آگئے ان کا کہنا تھا کہ ہمارے پاس کوئی جادو کی چھڑی یا بٹن نہیں ہے کہ مڈل آرڈر بیٹنگ کا مسئلہ،غیر معیاری فیلڈنگ اور پریشر میں اچھا نہ کھیلنے کا حل نکال لیں اس کے لیے ایک طریقہ کار سے گزرنا پڑتا ہے اور اسی طریقہ کار پر عمل شروع کیا ہے۔ 

سب کہتے ہیں کہ قومی ٹیم کا مڈل آرڈر مضبوط نہیں فیلڈنگ معیاری نہیں پریشر میں اچھا نہیں کھیلتے ہمارے پاس کوئی بٹن نہیں یا جادو کی چھڑی نہیں کہ سب جلدی ٹھیک ہو جائے گا۔ ان سب خامیوں پر قابو پانے کے لیے ایک عمل سے گزرنا پڑتا ہے پی جے ایل اور بیسٹ ہنڈرڈ ایک طریقہ کار بنانے کی کوشش ہے اس عمل میں وقت لگے گا لیکن طریقہ کار یہی ہے، پی جے ایل کے اسٹار پی ایس ایل میں دکھائی دیں گے۔

رمیز راجا نے کہا کہ پاکستان کرکٹ ٹیم نے نیوزی لینڈ میں اچھی شروعات کی ہے، جیت ،جیت ہوتی ہے ، اس سے اعتماد میں اضافہ ہوتا ہے پلان یہی تھا کہ 1992 ورلڈ کپ کی طرح قومی ٹیم 30 روز پہلے آسٹریلیا جاتی لیکن انگلینڈ کی سیریز اور پھر نیوزی لینڈ سہ فریقی سیریز کی وجہ سے ممکن نہ ہو سکا، نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا میں ایک جیسا باؤنس ہوتا ہے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اب تیاری کا اچھا موقع مل رہا ہے۔رمیز راجا جب سے پی سی بی چیئرمین بنے ہیں وہ پاکستان کرکٹ کو بہتر بنانے کے لئے اقدامات کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔

پاکستان جونیئر لیگ کے بعد مارچ میں پنڈی میں پہلی خواتین کرکٹ لیگ کا اعلان کر دیا ہے جس میں چارشہروں کی ٹیمیں حصہ لیں گی۔پی سی بی کے مطابق لیگ کے میچز پاکستان سپر لیگ کے ساتھ ہوں گے۔فائنل میچ پی ایس ایل فائنل سے ایک دن پہلے ہوگا۔ ہر ٹیم میں 12مقامی اور چھ غیر ملکی کرکٹڑز حصہ لیں گی، مجموعی طور پر12لیگ میچ ہوں گے۔

چیئرمین رمیز راجا نے کہا کہ اس لیگ کے ذریعے نوجوان خواتین کرکٹرز کو اپنی اسکلز بہتر بنانے کاموقع ملے گا۔ پاکستانی ٹیم نے ناقدین کو کارکردگی سے خاموش کیا ہے۔ پاکستان نے بنگلہ دیش کو 21 رنز سے شکست دے دی لیکن مڈل آرڈر پھر ناکام، بابر اعظم اوررضوان اکیلے کب تک ٹیم کا بوجھ اٹھائیں گے۔پاکستان اور بنگلہ دیش کی کرکٹ ٹیمیں ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں ایک ہی گروپ میں ہیں، اس لیے نیوزی لینڈ کی یہ سہ فریقی سیریز ان دونوں کے لیے عالمی مقابلے میں جانے سے قبل اپنی غلطیاں سدھارنے کا آخری موقع فراہم کر رہی ہے۔انگلینڈ کے خلاف حالیہ سیریز میں مایوس کن کارکردگی کے بعد حیدر علی کے لیے فارم میں واپس آنے کے لیے اچھا موقع تھا لیکن وہ صرف 6 رنز بنا کر تسکین احمد کی گیند پر باؤنڈری پر کیچ ہوگئے۔

حیدر علی جب انٹرنیشنل کرکٹ میں آئے تھے تو ان کے ٹیلنٹ پر کافی بات ہوئی تھی لیکن وقت کے ساتھ ساتھ ان کی کارکردگی بہتر سے بہتر ہونے کے بجائے نیچے چلی گئی۔ ویسٹ انڈیز کے خلاف گذشتہ سال کراچی میں نصف سنچری بنانے کے بعد وہ چھ اننگز میں بری طرح ناکام رہے ہیں۔ انگلینڈ کے خلاف سیریز میں انھیں چار میچ کھیلنے کو ملے جن کی تین اننگز میں وہ صرف تین، چار اور 18 رنز ہی بنانے میں کامیاب ہو سکے تھے اور اب اس میچ میں بھی ناکامی کے بعد ان کی ورلڈ کپ سکواڈ میں موجودگی پر سوالیہ نشان لگا ہوا ہے۔افتخار احمد 13 رنز بنا کر حسن محمود کی گیند پر ڈیپ مڈوکٹ پر کیچ ہوئے۔ افتخار احمد بھی ایک ایسے بیٹسمین ہیں جو ملنے والے مستقل مواقعوں سے فائدہ اٹھانے میں ناکام رہے ہیں۔ 

اس سال 12 ٹی ٹوئنٹی اننگز میں ان کا سب سے بڑا انفرادی سکور صرف 32 رنز سری لنکا کےخلاف ایشیا کپ میں رہا ہے۔ پاکستانی بیٹنگ لائن کے ناکام بیٹسمینوں میں ایک اور نام آصف علی کا ہے جن کا یہ 50واں ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل تھا۔ جب وہ بیٹنگ کے لیے آئے تو اس وقت 16 گیندوں کا کھیل باقی تھا لیکن وہ صرف چار گیندیں کھیل کر اتنے ہی رنز بناکر ڈگ آؤٹ میں واپس لوٹ گئے۔

بنگلہ دیش کے خلاف بھی یہ مڈل آرڈر بیٹنگ گرجی نہ برسی لیکن محمد رضوان ایک بار پھر ٹیم کے کام آئے۔ باقی کسر بولنگ نے پوری کر کے پاکستان کو 21 رنز کی جیت سے ہمکنار کر دیا۔یہ ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میں پاکستان کی بنگلہ دیش کے خلاف 16 میچوں میں 14ویں کامیابی ہے۔ اس سال پاکستانی ٹیم 15 میں سے 7واں ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل جیتی ہے جبکہ بنگلہ دیش کی اس سال 13 میچوں میں یہ 8ویں شکست ہے۔

پاکستانی کرکٹ ٹیم کے پاس وقت کم ہے اور اسے دوہرے مسائل کا سامنا ہے۔ ایک جانب مڈل آرڈر بیٹنگ کے معاملات پریشان کن ہیں تو دوسری جانب اسے اپنے کھلاڑیوں کے مکمل فٹ ہونے کا بے چینی سے انتظار ہے۔ شاہین شاہ آفریدی اور فخر زمان اس سیریز میں نہیں ہیں۔ نسیم شاہ اور محمد حسنین بیمار ہیں اور عثمان قادر کا انگوٹھا فریکچر ہے۔ پاکستانی ٹیم انہی مسائل کے ساتھ حریفوں سے بھی نبرد آزما ہے۔ سہ فریقی ٹی ٹوئنٹی سیریز کے پہلے میچ میں اس نے بنگلہ دیش اور نیوزی لینڈ کو شکست دے کر سہ فریقی سیریز کے فائنل کی طرف قدم بڑھا دئیے۔نیوزی لینڈ کی ٹیم گذشتہ سال ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کا فائنل کھیلی تھی لیکن یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ اسی ٹورنامنٹ میں وہ پاکستان سے ہاری بھی تھی۔ 

سہ فریقی سیریز سے قبل نیوزی لینڈ کی ٹیم 10میں سے نو ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل جیت چکی تھی لیکن اس کا سامنا ویسٹ انڈیز، آئرلینڈ، سکاٹ لینڈ اور ہالینڈ جیسی کمزور ٹیموں سے رہا تھا۔ نیوزی لینڈ کے خلاف 37 رنز پر دو وکٹیں گرنے کے بعد شاداب خان کو چوتھے نمبر پر بھیجنے کا جرات مندانہ فیصلہ درست ثابت ہوا۔ بابر اعظم اور ان کے درمیان 61 رنز کی شراکت میں شاداب خان کا حصہ 34 رنز رہا جس میں دو چھکے اور دو چوکے شامل تھے۔

وہ اپنا کام خوب کر گئے۔بابر اعظم نے 53 گیندوں کا سامنا کرتے ہوئے 11 چوکوں کی مدد سے 79 رنز بنائے اور ناٹ آؤٹ رہے۔ پاکستانی ٹیم نے جب مطلوبہ ا سکور پورا کیا تو 10گیندیں باقی تھیں۔ پاکستانی ٹیم کی اچھی کارکردگی نے شائقین کے لئےورلڈ کپ میں ایک بار پھر امید کی کرن پید ا کردی ہے۔تاہم مڈل آرڈ کو ٹاپ آرڈ پر بوجھ کم کرنا ہوگا۔

اسپورٹس سے مزید
کھیل سے مزید