اسلام آباد ( رانا غلام قادر ) قومی اسمبلی کے آٹھ حلقوں اور پنجاب اسمبلی کے تین حلقوں کے ضمنی الیکشن کے نتائج نے عمران خان کی سیا ست کے مستقبل کے رخ کا تعین کر دیا ہے۔
انہوں نے خود اسے عوامی ریفرنڈم قرار دیاتھا ۔ انہیں اپنی 100فی صد کا میابی کا یقین تھا کیونکہ یہ تمام نشستیں پی ٹی آئی نے خالی کی تھیں لیکن قومی اسمبلی کی دو نشستوں پر انہیں شکست ہوئی ۔
انہوں نے بیک وقت سات حلقوں سے الیکشن لڑا جس میں سے وہ چھ نشستوں پر کامیاب ہوگئے لیکن کراچی میں پیپلز پارٹی کے عبد الحکیم بلوچ نے دس ہزار ووٹوں سے انہیں ہر اکر یہ ثابت کردیا کہ بہر حال عمران خان نا قابل شکست ہر گز نہیں۔
نتائج نے ثابت کیا کہ وہ بھی تک مقبول لیڈر ہیں لیکن پیپلز پارٹی کے ایک کارکن سے شکست ان کی ساکھ کیلئے سوالیہ نشان ہے۔ملتان میں پیپلز پارٹی کے امیدوار موسیٰ گیلانی نے پی ٹی آئی کی امیدوار مہر بانو قریشی کو 20ہزار ووٹوں شکست دی ہےجو قریشی خاندان کیلئے ہی نہیں پی ٹی آئی کیلئے بھی بڑا اپ سیٹ ہے۔
ضمنی الیکشن میں پیپلز پارٹی نے بہت اچھی کا ر کردگی دکھائی ہے جس کا اگلے الیکشن میں اسے فائدہ ہوگا۔ پی ٹی آئی کو یہ سیا سی دھچکہ ان ضمنی الیکشن کے نتائج سے ضرور ملاہے کہ ان کی چھوڑی ہوئی دو نشستوں پر اب حکمران اتحاد کے ممبران بیٹھیں گے۔
پنجاب میں مسلم لیگ ن کی کا کردگی اچھی نہیں رہی ۔ فیصل آ باد اور ننکانہ صاحب کی نشستوں پر ان کی شکست کا مارجن 2018 کے مقابلہ میں بڑھ گیا ہے ۔ اگرچہ یہ ایک فیکٹر ضرور ہے کہ عمران خان پارٹی لیڈر تھے اور مقامی امیدواروں کے مقابلہ میں ان کی شخصیت کا لیول بڑا تھا۔ دوسرا فیکٹر یہ ہے کہ پنجاب میں پی ٹی آئی اور ق لیگ کی مخلوط حکومت ہےتاہم اس کے با وجود ن لیگ کو اچھی کا ر کردگی دکھانی چاہئے تھی کیونکہ پنجاب کو ن لیگ کا گڑھ تصور کیا جا تا ہے۔
پنجاب اسمبلی کی تین میں سے صرف ایک نشست پر کا میابی بھی ن لیگ کی کا کردگی کیلئے سوالیہ نشان ہے۔عمران خان کی کامیابی سے قومی اسمبلی میں پی ٹی آئی کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا کیونکہ عمران خان اسمبلی میں نہیں بیٹھیں گے ۔ وہ اسمبلی جانے کا فیصلہ کر بھی لیں تو یہ نشستیں خالی ہو جائیں گی ۔
اس طرح عملا ً یہ ایک لا یعنی مشق تھی جس پر قومی خزانہ کے خطیر وسائل ضائع کئے گئے۔ اس ضمنی الیکشن کا ایک پہلو اہم ہے کہ عمران خان نے اس ضمنی الیکشن کی بھرپور انتخابی مہم چلائی۔ بڑے بڑے جلسے کئے جبکہ پی ڈی ایم کی قیادت نے اپنے آپ کو انتخابی مہم سے دور رکھا اور مقامی امیدواروں نے اپنے بل بوتے پر یہ الیکشن لڑا۔
عمران خان اسلام آباد پر چڑ ھائی کی کال کیلئے ضمنی الیکشن کے نتائج کے منتظر تھے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ یہ کال دیں گے یا اسمبلی واپس جا کر حکومت سے مذاکرات کا راستہ اختیار کریں گے کیونکہ اسلام آ باد میں اب موسم سر ما شروع ہونے والا ہے اور سردی میں دھرنا دینا ان کے کا رکنوں کیلئے آزمائش ہوگی۔
دس اپریل کو جب عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کا میاب ہوئی تو شکست سے مایوس ہو کر صدمے کی کیفیت میں انہوں نے اسمبلی چھوڑنے کا جذباتی مگر غیر سیا سی فیصلہ کر کے نہ صرف اپنی بلکہ اپنی پارٹی کی سیا ست کو امتحان میں ڈال دیا۔
ان کی پارٹی کے سابق سیکرٹری جنرل اور صدر مملکت ڈاکٹر عاف علوی بھی یہ کہ چکے ہیں کہ اسمبلی چھوڑ نے کا فیصلہ عمران خان نے فر سٹیشن میں کیاتھا۔
اس سے بہر حال یہ ثابت ہوا کہ عمران خان سیا سی فیصلے حکمت اور دانائی یا معاملہ فہمی کی بجا ئے ضد اور انا کے اسیر ہوکر کرتے ہیں جس کے بہر حال سیا سی مضمرات ہوتے ہیں۔
عمران خان کو اس جذباتی فیصلہ کی بھاری قیمت ادا کرنا پڑی ہے۔ ان کے 20ممبران قومی اسمبلی منحرف ہوگئے۔ راجہ ریاض اپوزیشن لیڈر بن گئے جن کے ساتھ وزیر اعظم شہباز شریف نے بہترین ورکنگ ر یلیشن شپ قائم کرلی اور چیئر مین نیب اور الیکشن کمیشن کے دو ممبران کی اہم تقرریاں کر لیں۔
عمران خان کی غلط سیا سی اپروچ کی وجہ سےپچھلے چھ ماہ سے عملی طور پر حکومت کو واک اوور حاصل ہے۔