• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

سیاسی عدم استحکام: معاشی زبوں حالی کا باعث بنے گا

یوں تو انگریز سے آذادی کے بعد سے ہم متحد ہو کر ملک کو مضبوط بنانے کی بجائے اپنی الگ الگ دکان کھول کر بیٹھ گئے جس سے اخراجات بڑھ گئے اور ہم ضرورتیں پوری کرنے کے لیے قرضے لیتے گئے اور اب نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ قرضے اتارنے کے لئے ہم قرض لینے پر مجبور ہیں ،آبادی میں بےقابو اضافہ ،غربت اور بےروزگاری ہمارا مقدر بن کر رہ گئی ہے، مل بیٹھنے میں برکت ہے مگر ہم ایک دوسرے کو چور ڈاکو قرار دے کر نفرتیں بڑھانے میں مصروف ہیں ،جس کے نتیجے میں جرائم میں اضافہ بے قابو ہو گیا ہے، اقتدار ہماری منزل بن کر رہ گیا ہے جس کے حصول کے لیے ہم تمام اصولوں اور قواعد و ضوابط کا قتل کرنے سے گریز نہیں کرتے،2018ء کے انتخابات کے نتیجے میں منتخب ہونے والے وزیر اعظم عمران خان کو اپوزیشن جماعتوں نے عدم اعتماد کے ذریعے مسند اقتدار سے الگ کر دیا مگر وہ بضد ہیں کہ فوری انتخابات کروائے جائیں۔

فریقین باہر تو بیک ڈور رابطوں کی تردید کرتے ہیں مگر عمران خان نے سینیٹر اعظم سواتی کے ہمراہ پریس کانفرنس میں بیک ڈور مزاکرات ناکام ہونے کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ انہیں انتخابات نہیں کرانے، مارچ کا اعلان جمعہ کو کروں گا۔ جمعہ کو عمران خان کیا اعلان کرتے ہیں، لگ پتہ جائے گا، توشہ خانہ ریفرنس میں الیکشن کمیشن نے عمران خان کو نااہل قرار دے دیا ہے اور باخبر حلقے اسے عمران خان کی ضدی طبعیت کو نارمل کر کے پارلیمنٹ میں لانے کی کوشش قرار دے رہے ہیں ،باخر حلقوں کا دعویٰ ہے کہ عمران خان نے عوامی آشیر باد کا دعویٰ کرتے ہوئے ضد جاری رکھی تو مزید جھٹکے بھی متوقع ہیں،ان کے خلاف کئی معاملات زیر التوا ہیں، فارن فنڈنگ کیس بھی کسی سخت جھٹکے کا موجب بن سکتا ہے، ملک میں سیاسی تقسیم اتنی گھمبیر ہو چکی ہے کہ پارلیمنٹ سے باہر ڈائیلاگ ممکن نہیں اور سیاسی جماعتوں کے درمیان گفتگو کے بغیر قومی انتخابات کرانے کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ ہارنے والے نتائج ہی تسلیم نہیں کریں گے۔ 

پاکستان مسلم لیگ (ن) کی قیادت 2018ء میں دھاندلی کے الزامات لگانے کے بعد بھی پارلیمنٹ میں میثاق معیشت پر آمادہ تھی مگر وزیراعظم عمران خان نے اپوزیشن جماعتوں کی قیادت کو چور اور ڈاکو قرار دیتے ہوئے ان سے ہاتھ ملانے سے ہی انکار کردیا۔ سیاسی حلقے اپوزیشن جماعتوں کے اقتدار میں آنے کے فیصلے کو غیر سیاسی فلسفہ قرار دیتے ہیں جس سے پی ٹی آئی کے دور اقتدار میں ہونے والے تمام غلط فیصلوں کا خمیازہ بھی اتحادی حکومت کو فیس کرنا پڑا ،پنجاب اسمبلی کے بیس میں سے پندرہ حلقوں میں پی ٹی آئی کی کامیابی کے بعد قومی اسمبلی کے آٹھ حلقوں میں ضمنی انتخابات میں چھ پر عمران خان کی کامیابی عوامی حمایت کی شکل میں سامنے موجود ہے۔

الیکشن کمیشن کی طرف سے عمران خان کو نااہل قرار دئیے جانے کے فیصلے کو مسئلے کا حل نہیں سمجھا جا رہا ۔کور کمانڈر کانفرنس ہو ،اسلام آباد ہائیکورٹ ہو یا سپریم کورٹ ،سب کی متفقہ رائے ہے کہ سیاسی جماعتوں کو پارلیمنٹ کو اہمیت دینی چاہیے ، معاملات عدالتوں میں لے جا کر پارلیمنٹ کی اہمیت کم کی جا رہی ہے ،فوج نیوٹرل رہنے کا فیصلہ کر چکی ہے تو اسے اس پر کاربند رہنے کا موقعہ دیا جائے ، امن وامان کی مخدوش صورتحال میں آسٹیبلشمنٹ کے لیے خاموش تماشائی بنے رہنا ممکن نہیں ہوگا۔ 

اعلی عدالتوں میں سیاسی معاملات لے جانے سے عدالتیں اور ججز کے فیصلوں پر بھی سوال اٹھنا شروع ہو جاتے ہیں، سیاسی جماعتوں اور قیادت کو خبردار کیا گیا ہے کہ جمہوریت کی بقاء اور استحکام میں ہی ملک کی سلامتی پنہاں ہے سیاسی استحکام میں ناکامی کی صورت میں معاشی صورتحال مزید مخدوش ہو گی جس کا نتیجہ خانہ جنگی کی شکل میں سامنے آئے گا ،ابھی تو صرف وزیر داخلہ کو پنجاب میں للکارا جا رہا ہے ، سیاسی تقسیم میں مزید اضافے کی صورت میں چاروں صوبوں کی سیاسی قیادت کا ایک دوسرے کے علاقے میں داخلہ مشکل ہو جائے گا ،سیاست دانوں کو ہی قومی یکجہتی کے لیے کردار ادا کرنا ہوگا کیونکہ اقتدار کے مزے وہی لوٹتے ہیں جن کے ختم ہونے کا خدشہ ہے ، پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کو بھی یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ تبدیلی ایک ہی کوشش میں ممکن نہیں ہوتی، تبدیلی مسلسل کوشش سے ہی ممکن ہے ،جسے اس ملک کے عوام مینڈیٹ دیتے ہیں۔ 

ان سے ہاتھ نہ ملانا عوامی مینڈیٹ کی توہین ہے، عوامی مینڈیٹ کے بغیر نہ تو دھرنا دیا سکتا ہے اور ہی الیکشن جیتے جاسکتے ہیں، اتحادی حکومت کے وزیر اعظم شہباز شریف واضح کر چکے ہیں کہ الیکشن اپنے شیڈول کے مطابق ہونگے، آرمی چیف کی تقرری بھی حکومت کا اختیار ہے ،کسی کو زبردستی اسلام آباد میں نہیں گھسنے دیں گے، مسائل جلسے جلوسوں سے نہیں مل کر کام کرنے سے حل ہوں گے وزیراعظم نے اس عزم کو دہرایا ہے کہ پاکستان کے مستقل کے لیے وہ کسی بھی فریق مخالف کے پاس جانے کو تیار ہیں، سعودی عرب سے ایک اور بیل آؤٹ پیکج کے لیے وزیر اعظم شہباز شریف دو روزہ مکمل کرکے وطن واپس پہنچ گئے وزیراعظم نے اپنے دورے کے دوران "ڈیووس ان دی ڈیزرٹ" کانفرنس میں شریک ہوئے اور سعودی قیادت سے ملاقاتیں بھی کیں جن میں سعودی حکومت اور سعودی سرمایہ کاروں کو پاکستان میں سرمایہ کاری کی ترغیب دی گئی۔

وزیر اعظم نے سعودی ولی عہد کو دورہ پاکستان کی باضابطہ دعوت بھی دی جو انہوں نے قبول کر لی، پاکستان پپلز پارٹی کے چیئرمین وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے بھی عمران خان کو گیٹ نمبر چار کے بجائے پارلیمنٹ انے کی دعوت دی،پپلز پارٹی کے چیئرمین نے عمران خان کو سیاسی انتہا پسند قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس نے پاکستان کی معیشت پر حملہ کیا اسے عدم اعتماد سے گھر بھیجنا جمہوریت کی فتح ہے، آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھی قومی مفادات کی حفاظت کے لیے ہم آہنگی ناگزیر قرار دے دی۔

انہوں نے خبردار کیا کہ امن و استحکام صرف ریاست کی رٹ سے ہی ممکن ہے، پاکستان نے کئی چیلنجر کا سامنا کیا اور مضبوطی سے ابھر کر نکلا، نامور صحافی اور اینکر پرسن ارشد شریف کی کینیا میں گاڑی نہ روکنے کی پاداش میں پولیس فائرنگ سے موت نے 28 سال قبل کینال روڈ لاہور پر گاڑی نہ روکنے پر پولیس فائرنگ سے دی نیوز کے نیوز ایڈیٹر جاوید رانا کی موت کی یاد تازہ کر دی ہے، عمران خان کو نااہل قرار دئیے جانے کے بعد ان کے حامی جرنلسٹ کی موت نے کینیا پولیس بارے بہت سے سوالات کھڑے کر دیے ہیں، مرحوم ارشد شریف کی والدہ نے اس سے پہلے بھی ایک ہی دن میں اپنے خاوند کے ساتھ ساتھ جواں بیٹے کے جنازے کو بھی الوداع کیا تھا۔

ملک میں سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے معیشت جھٹکے کھا رہی ہے اگر سیاسی استحکام ہو تو معیشت کو سنبھالا دیا جاسکتا ہے ،مہنگائی کا دور دورہ ہے، روز مرہ کی ضروریات زندگی کا حصول مشکل ہو کر رہ گیاہے تنخواہ دار طبقے کے لیے دو وقت کی روٹی مشکل ہو گئی ہے،لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ ریاست کے ستون مل بیٹھیں اور اپنے اپنے تحفظات کو پس پشت ڈال کر میثاق جمہوریت اور معیشت طے کریں تاکہ وطن عزیز کے عوام سکھ کا سانس لیں۔

تجزیے اور تبصرے سے مزید
سیاست سے مزید