اسلام آباد (انصار عباسی) جمعرات کو ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس میں آئی ایس آئی کے سربراہ کی حیران کن موجودگی بے مثال تھی اور یہ پاک فوج اور آئی ایس آئی کی سینئر قیادت کیخلاف عمران خان کی زیر قیادت پی ٹی آئی کی کئی ماہ کی توہین آمیز مہم کا جواب تھا۔
لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم اور لیفٹیننٹ جنرل بابر افتخار، دونوں افسران انتہائی پرسکون، منظم اور شائستہ انداز سے میڈیا سے بات چیت کرتے رہے۔ پی ٹی آئی کی طویل مہم کے حوالے سے یہ ادارے کی طرف سے ناراضی کا اظہار تھا جس کی وجہ سے یہ لوگ اس انداز سے عوام کے سامنے آئے جس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی۔
اب تک پالیسی یہ تھی کہ عمران خان کے الزامات اور پی ٹی آئی بالخصوص پارٹی کی سوشل میڈیا ٹیم کے فوج مخالف بیانیے پر براہِ راست کوئی رد عمل ظاہر نہیں کرنا۔ لیکن، ساری حدیں اس وقت عبور کر لی گئیں جب حال ہی میں پارٹی اور اس کے چیئرمین نے صحافی ارشد شریف کی کینیا میں ہلاکت کے معاملے پر ادارے کی طرف انگلیاں اٹھانا شروع کر دیں۔
فوج اور اس کی سینئر قیادت پر اس الزام کے دو سخت اثرات ہوں گے۔ اول، ادارے پر اس سنگین جرم کا غلط الزام بغیر کسی ثبوت عائد کیا جا رہا ہے۔ دوم، سیاسی جماعت کی طرف سے چلائی جانے والی مہم اس قدر مذموم تھی کہ اس سے عوام اور ادارے کے مابین عدم اعتماد پھیل سکتا ہے۔
اس صورتحال کی وجہ سے جمعرات کو غیر معمولی انداز سے پریس کانفرنس کی ضرورت پیش آئی۔ دونوں جرنیلوں نے حیران کن حقائق پیش کیے اور مذموم الزامات کیلئے پھیلائے جانے والے جھوٹ، اور عمران خان، ان کے مداحوں اور ان کے ایسے میڈیا پارٹنرز کو بے نقاب کیا جو اداروں اور ان کی سینئر قیادت کیخلاف پی ٹی آئی کیلئے سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ کرتے رہے ہیں۔
دونوں افسران کی پریس کانفرنس کا مقصد نہ صرف عمران خان کی اداروں کیخلاف جارحانہ مہم کا توڑ نکالنا تھا بلکہ عوام کو خبردار کرنا بھی تھا کہ فوج اور اس کی قیادت کیخلاف نفرت پھیلانا کس قدر خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ یہ واضح کردیا گیا کہ ادارے اور اس کی قیادت کو قانون و آئین پر عمل کرنے کی وجہ سے اور عمران خان کے غیر آئینی اور غیر قانونی مطالبات نہ ماننے پر نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
ڈی جی آئی ایس آئی نے یہ حیران کن انکشاف کیا کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو رواں سال مارچ میں مجاز اتھارٹی (عمران خان) کی طرف سے غیر معینہ مدت کیلئے توسیع کی پیشکش کی گئی تھی تاکہ آرمی چیف کی مدد لے کر اپنی حکومت کو اپوزیشن کی عدم اعتماد کی تحریک سے بچایا جا سکے۔
جنرل باجوہ نے یہ پیشکش قبول نہیں کی اور وہ ماضی کی سیاسی جوڑ توڑ کی غلطی کو دوبارہ دہرانے کیلئے تیار نہیں تھے۔ ڈی جی آئی ایس آئی نے حیرانی کا اظہار کیا کہ جس آرمی چیف کو عمران خان خود اس قدر سراہتے تھے وہی آرمی چیف اچانک ہی (پی ٹی آئی حکومت کے ہٹائے جانے کے بعد) اُن کے بدترین ہدف بن گئے۔
انہوں نے کہا کہ جب جھوٹ تواتر سے اور پر اعتماد ہوکر بولا جائے تو ضروری ہے کہ سر پر منڈلاتے فتنے کے علاج کیلئے سچ کو سامنے لایا جائے۔ دونوں جرنیلوں نے عمران خان کے حکومت کی تبدیلی کی سازش کے بیانیے اور امریکی سائفر کی باتوں کو جھوٹ قرار دیا اور یہ حقائق پیش کیے کہ کس طرح پی ٹی آئی کی خیبر پختونخوا کی حکومت اور اے آر وائی کے سلیمان اقبال نے ارشد شریف کو پاکستان سے باہر اور پھر کینیا جانے پر مجبور کیا۔
اب تمام تر نظریں عمران خان پر مرکوز ہیں۔ وہ کس رد عمل کا اظہار کریں گے؟ کیا انہیں اس بات کا احساس ہوگا کہ فوج اور اس کی سینئر قیادت کیخلاف ان کے اپنے غیر ذمہ دارانہ بیانات اور ان کی پارٹی کی جانب سے فوج مخالف مہم چلانے کی وجہ سے فوج کو بحیثیت ایک ادارہ جواب دینا پڑا؟
کیا وہ دوبارہ فوج کی غیر جانبداریت کا مذاق اڑائیں گے؟ کیا وہ فوج کے سینئر کمانڈرز کو ’’غدار‘‘ یا ’’ہینڈلرز‘‘ جیسے القابات سے نوازیں گے؟ کیا عمران خان ایک مرتبہ پھر فوج کی مداخلت اور جلد الیکشن کا مطالبہ دہرائیں گے؟ کیا وہ مستقبل کے آرمی چیف کو بھی سیاست زدہ کریں گے؟