اسلام آباد(فاروق اقدس/ تجزیاتی رپورٹ) آج یکم نومبر سے نئے ماہ کا آغاز ہو رہا ہے جس کا بالخصوص چھ ماہ سے شدت اور بے چینی سے انتظار ہو رہا تھا اور ابھی کچھ دن مزید یا پھر تقریباً ایک ماہ تو بہرحال انہی کیفیات میں گزرے گا البتہ اس دوران شدت اور بے چینی میں مزید اضافہ اضطراب میں بدل سکتا ہے۔
اپنے فیصلوں جن کا درومدار اور انحصار محض ایک فیصلے پر ہے موجودہ نومبر 2022 پاکستان کی تاریخ میں ’’ایک ناقابل فراموش‘‘ یا پھر یادگار نومبر بھی ہوسکتا ہے۔
اگر وزیراعظم شہباز شریف کے حوالے سے دیکھیں تو نومبر کا آغاز انکے اولیں دورہ چین سے شروع ہورہا ہے جسے جہاں اسلام آباد اور بیجنگ غیر معمولی اہمیت دے رہے ہیں وہیں پاکستان کے وزیراعظم کے اس دورے پر خطے کی صورتحال کے پیش نظر بڑی طاقتوں اور بالخصوص پڑوسی ملک بھارت کی بھی نظریں گڑیں ہوئی ہیں ممکن ہے کہ وزیراعظم کے اس دورے میں کوئی چونکا دینے والی فوری کامیابی کی نوید سامنے نہ آئے لیکن دونوں ملکوں کے مابین گزشتہ حکومت میں بعض امور میں پیدا ہونے والے ابہام کو دور کرنے میں مدد ضرور ملے گی۔
موجودہ حکومت کے اقتدار میں آنے کے ساتھ ہی وزیراعظم نے ترجیحی طور پر سعودی عرب اور چین کے دوروں کا اعلان کیا تھا جس پر سعودی عرب کا دورہ تو دو مرتبہ ہوچکا ہے لیکن بوجوہ وزیراعظم چین کے دورے پر نہ جاسکے تاہم اب وہ ملک کی داخلی صورتحال بالخصوص تحریک انصاف کے لانگ مارچ سے پیدا ہونے والی کسی بھی غیر متوقع صورتحال کے خدشے کے پیش نظر اپنا دورہ چین ملتوی کرسکتے تھے لیکن وزیراعظم نے ایسا نہ کرکے یہ خاموش پیغام دیا ہے کہ وہ عمران خان کے لانگ مارچ کو اس سطح کی اہمیت دینے کیلئے ہرگز تیار نہیں۔
جہاں تک تحریک انصاف کے لانگ مارچ اور تحریک انصاف کے چیئرمین کے مطالبات کا معاملہ ہے انہوں نے لانگ مارچ کا آغاز بار بار تاریخیں دینے کے بعد ’’مطلوبہ صورتحال‘‘ دستیاب ہونے کے بعد اچانک ہی دیا تھا جسے سرپرائز قرار دیا جارہا تھا اور اب وہ اس وقت تک لانگ مارچ کو ’’ رواں دواں‘‘ رکھیں گے جب تک انہیں ’’معاملات طے‘‘ ہونے کی یقین دہانی نہ کرا دی جائے ایسی صورت میں وہ لانگ مارچ اسلام آباد پہنچنے سے پہلے بھی ختم کرسکتے ہیں یا پھر اسلام آباد پہنچنے کی رسمی کارروائی کرکے بھی، تاہم اس کا انحصار یقین دہانی ملنے اور معاملات طے ہونے پر ہے۔
تحریک انصاف کے ذرائع کے مطابق لانگ مارچ کا قافلہ چار نومبر تک اسلام آباد پہنچ جائے گا لیکن جیسا کے پہلے کہا گیا ہے کہ اگر معاملات طے ہو جاتے ہیں، یقین دہانی کرا دی جاتی ہے تو قافلے تیار رفتاری سے پہلے بھی پہنچ سکتے ہیں وگرنہ اسلام آباد پہنچنے پر دس دن یا اس سے زیادہ بھی لگ سکتے ہیں کیونکہ جی ٹی روڈ پر رواں قافلے میں ہر طرح کی آزادی حاصل ہے۔