کراچی (نیوز ڈیسک) پاکستان اور چین کے درمیان براہ راست چینی کرنسی میں تجارت کے حالیہ معاہدے کے بعد معاشی ماہرین نے ڈالر کی مانگ قور قدر دونوں میں کمی کا امکان ظاہر کردیا ہے ۔ تاہم کچھ ماہرین نے اس معاہدے کو پاکستانی قیادت کے حالیہ چین کے دورے سے منسوب کرتے ہوئے سیاسی بیان قرار دیا ہے۔ مالیاتی ماہر اور کرنسی ڈیلرز کی تنظیم پاکستان کرنسی ایکسچینج ایسوسی ایشن کے چیئرمین ملک بوستان کے مطابق اس معاہدے کے بعد امریکی ڈالر کی مانگ میں واضح کمی آئے گی اور روپے کی قیمت بہتر اور ڈالر کی قیمت میں کمی ہوگی۔ ملک بوستان نے کہا’پاکستان کی چین کے ساتھ 18 ارب امریکی ڈالر کے برابر کی سالانہ تجارت ہے۔ اگر یہی رقم ڈالر کی بجائے چینی کرنسی میں ہو تو بھی بڑا فرق پڑے گا۔ اس معاہدے کے بعد ڈالر کی قیمت نیچے آسکتی ہے۔ قائداعظم یونیورسٹی کی سائنس فیکلٹی کی سابق ڈین، اکنامکس کی ریٹائرڈ پروفیسر اور نامور تجزیہ نگار ڈاکٹر عالیہ ہاشمی خان نے کہا: ’یہ کہنا کہ ڈالر کی بجائے چینی کرنسی میں تجارت کرنے سے پاکستان معشیت میں بڑی مثبت تبدیلی آجائے گی، یہ ایک سیاسی بیان سے زیادہ کچھ نہیں۔قبل ازیں ملک بوستان کا کہنا ہے کہ ہم جو سالانہ درآمدات کے لئے امریکی ڈالر ادا کرتے ہیں، اس معاہدے کے بعد پاکستان کے امپورٹ بل میں 70 ارب ڈالر کا فرق آئے گا۔’ڈالر کے لیے جو اکثر جا کر منتیں کرنا پڑتی تھیں جو نہیں کرنی پڑیں گی۔ اس کے علاوہ ساری دنیا میں مقامی کرنسیوں میں تجارت کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ تو ایسے میں اگر ہم بھی کر رہے ہیں تو کیا برا ہے؟‘ ملک بوستان کے مطابق ترکی، روس اور دیگر ممالک مل کر ڈالر کی بجائے دیگر کرنسی میں تجارت پر سوچ رہے ہیں۔’ایسے میں اگر پاکستان خطے کے دیگر ممالک بشمول ایران، چین اور افغانستان کے ساتھ مل کر مقامی کرنسی میں تجارت کرے تو معشیت پر بڑا اثر پڑ سکتا ہے۔‘ جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا معاہدے کے بعد پاکستان امریکی بلاک کی بجائے سرکاری طور چینی بلاک میں شامل ہوجائے گا؟ملک بوستان یکسر اس خیال کو مسترد کرتے ہوئے کہا: ’نہیں ایسا بالکل بھی نہیں۔ تجارت کے لیے کرنسی تبدیل کرنے سے کوئی بلاک تبدیل نہیں ہوتا۔’چین ایک معاشی طاقت ہے۔ امریکا اور چین میں کئی معاملات پر اختلافات کے باوجود دونوں میں تجارت بڑھ رہی ہے۔ سرحد پر جھڑپوں کے باوجود انڈیا اور چین کے تجارت پر کوئی فرق نہیں پڑا۔‘ قائداعظم یونیورسٹی کی سائنس فیکلٹی کی سابق ڈین، اکنامکس کی ریٹائرڈ پروفیسر اور نامور تجزیہ نگار ڈاکٹر عالیہ ہاشمی خان نے کہا: ’یہ کہنا کہ ڈالر کی بجائے چینی کرنسی میں تجارت کرنے سے پاکستان معشیت میں بڑی مثبت تبدیلی آجائے گی، یہ ایک سیاسی بیان سے زیادہ کچھ نہیں۔’یہ حالیہ دنوں میں وزیراعظم اور وفاقی وزرا کے دورہٗ چین کے بعد ایسا اعلان کیا گیا۔ بصورت دیگر اس سے معشیت پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔‘ ان کے خیال میں اگر یہ سمجھا جائے کہ ڈالر کی بجائے چینی کرنسی میں تجارت سے ہماری ایکسپورٹ بڑھتی ہوئی نظر آئے گی، تو ایسا نہیں ہوسکتا، اس کے لیے دیگر مالیاتی اقتدامات کرنے ہوں گے۔اس کے علاوہ عالمی کرنسیوں ڈالر اور یورو کے مقابلے میں چینی کرنسی تاحال تو عالمی کرنسی نہیں بنی ہے۔’اگر ایسا ہوتا تو دنیا کے دیگر ممالک بھی ڈالر کے بجائے اپنی تجارت چینی کرنسی میں کرنا پسند کرتے، مگر ایسا نہیں ہوا۔‘