اسلام آباد (جنگ رپورٹر)عدالت عظمیٰ نےʼʼ ریکوڈک کے نئے معاہدہ ʼʼسے متعلق وفاقی حکومت کی جانب سے رائے کے حصول کے لئے بھجوائے گئے صدارتی ریفرنس کی سماعت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ریکوڈک معاہدے کے لیے قانون میں کی گئیں ترامیم پر حکومت عدالت کو مطمئن کرے کہ قانون سازی درست طور پر کی گئی ہے ، چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں قائم پانچ رکنی لارجر بنچ نے سوموار کے روز صدارتی ریفرنس کی سماعت کی تو ایڈیشنل اٹارنی عامر رحمان نے دلائل میں کہا کہ معدنیات ایکٹ 1948پر ڈرافٹ بلوچستان اسمبلی سے منظور ہونا باقی ہے، بلوچستان حکومت اور حزب اختلاف نے متفقہ طور پر ریکوڈک سے متعلق قانون سازی پر قرارداد منظور کی ہے ،انہوںن ے کہا کہ ریکوڈک منصوبے میں کرپشن کا کوئی امکان نہیں ہے جبکہ معاہدے اور بات چیت کھلے عام اور شفافیت سے ہو رہی ہیں، دوران سماعت جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ ریکوڈک معاہدہ کے لیے کی گئی قانونی ترامیم کے حوالے سے حکومت ہمیں مطمئن کرے، یہ واضح نہیں ہے کہ معدنیات ایکٹ 1948وفاقی ہے یا صوبائی؟ اگر معدنیات ایکٹ 1948وفاق کا قانون ہے اس میں صوبہ ترمیم کیسے کرسکتا ہے؟ قوانین یا تو صوبائی ہوتے ہیں یا وفاقی، صوبے وفاقی قوانین کو اپناتے اور ان میں ترامیم کرتے ہیں،جس پر فاضل ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ حکومت بلوچستان معدنیات ایکٹ 1948کی صوبے سے متعلقہ شقوں میں ترمیم کر رہی ہے،جس پر جسٹس جمال مندوخیل نے ان سے استفسار کیا کہ کیا ریکوڈک منصوبے کے لیے کی جانے والی قانون سازی کا اطلاق باقی صوبوں میں ہو گا یا نہیں؟