تحریک انصاف کے لانگ مارچ کا سارا زور و شور بالائی پنجاب کی طرف ہے، اس حوالے سے جنوبی پنجاب کو لانگ مارچ کے لئے استعمال نہیں کیا گیا، اسد عمر نے بھی جو لانگ مارچ شروع کیا، وہ ٹوبہ ٹیک سنگھ سے تھا، جبکہ عمران خان کی قیادت میں لانگ مارچ لاہور سے شروع ہوا تھا، جسے بعدازاں شاہ محمود قریشی وزیر آباد واقعہ کے بعد آگے بڑھا رہے ہیں، جنوبی پنجاب کو سیاسی حوالے سے تحریک انصاف نے کیوں نظرانداز کیا اس بارے میں چہ مگوئیاں جاری ہیں، پورے ملتان میں صرف چونگی نمبر9کو، جو شہرکا سب سے معروف اور مرکزی چوک ہے، تحریک انصاف کے چند درجن کارکن جمع ہوکر بند کردیتے ہیں اور اس طرح احتجاج ریکارڈ کرایاجاتا ہے، جبکہ شہر کے کسی اور حصے میں کوئی ڈھنگ کا مظاہرہ نہیں ہوتا اور نہ ہی جنوبی پنجاب کے دیگر شہروں میں عمران خان پر حملہ کے خلاف کوئی بڑے مظاہرے دیکھنے میں آئے۔ ڈیرہ غازی خان میں سابق وزیر مملکت زرتاج گل متحرک رہی ہیں تاہم وہاں بھی ایسا کوئی مظاہرہ نہیں ہوا جسے قابل ذکر کہا جاسکے۔
سیاسی حلقے حیران ہیں کہ تحریک انصاف نے لانگ مارچ کا آغاز کرنے کے لئے جنوبی پنجاب کو کیوں منتخب نہیں کیا جبکہ یہاں سے 2018کے انتخابات میں تحریک انصاف کو خاطر خواہ کامیابی ملی تھی، ملتان تو وہ شہر ہے کہ جہاں سے تحریک انصاف نے کلین سویپ کیا تھا۔ شاہ محمود قریشی جو اس وقت تحریک انصاف کے لانگ مارچ کی قیادت کررہے ہیں ملتان سے لانگ مارچ لے کر لاہور کیوں نہیں گئے اور انہوں نے تحریک انصاف کو متحرک کیوں نہیں کیا ؟
سیاسی حلقے حیرت اس بات پر بھی ظاہر کررہے ہیں کہ تحریک انصاف نے وزیرآباد میں حملے کے بعد اپنی بدلی ہوئی حکمت عملی کے تحت مختلف علاقوں سے لانگ مارچ کرنے کا جو اعلان کیا تھا اس میں بھی ملتان کو نظرانداز کیا گیا ہے، ملتان کی بجائے ٹوبہ ٹیک سنگھ سے لانگ مارچ کرنا ایک لحاظ سے پنجاب کے ایک بڑے حصے کو تحریک انصاف سے دور کرنے کے مترادف ہے۔
شاہ محمود قریشی کو اگر یہ ذمہ داری سونپی گئی تھی کہ وہ عمران خان کی عدم موجودگی میں وزیرآباد سے لانگ مارچ کے دوبارہ آغاز کی قیادت کریں تو پھر اسد عمرکو ملتان سے لانگ مارچ شروع کرنا چاہئے تھا، مگر لگتا یہی ہے کہ تحریک انصاف کی قیادت یہ سمجھتی ہے کہ جنوبی پنجاب میں اب پارٹی کی وہ مقبولیت نہیں رہی جو ماضی میں تھی، اس لئے یہاں سے لانگ مارچ کی کال ایک فلاپ شو کا باعث بن سکتی تھی۔ سیاسی حلقوں کے بقول جب سے جہانگیر ترین نے تحریک انصاف سے علیحدگی اختیار کی ہے جنوبی پنجاب میں تحریک انصاف کا عوامی سطح پر اثرورسوخ کم ہوا ہے۔ شاہ محمود قریشی پارٹی کو اس طرح متحد اور متحرک نہیں رکھ سکے جس طرح وہ 2018کے انتخابات میں تھی۔ ٍ
اس کا اظہار مہربانو قریشی کی شکست کی صورت میں ہوا اور ویسے بھی احتجاجی سیاست کے حوالے سے اس علاقے میں تحریک انصاف کی عدم فعالیت اس حقیقت کو ظاہر کرتی ہے کہ پارٹی کا وہ مجموعی تأثر قائم نہیں رہا جو چند سال پہلے اس کی پہچان تھی۔ سرائیکی تنظیمیں اس کی سب سے بڑی وجہ یہ قرار دیتی ہیں کہ تحریک انصاف نے علیحدہ صوبہ کا وعدہ کرکے اپنے دورِ حکومت میں جس طرح وعدہ خلافی کی ہے اور علیحدہ سیکرٹریٹ کا ڈرامہ رچا کر صوبہ کی تحریک کو نقصان پہنچایا ہے، اس کی وجہ سے یہاں تحریک انصاف کے خلاف غصہ پایا جاتا ہے۔ اس کی دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ اپنے ساڑھے تین سالہ دورِ اقتدار میں کوئی بڑا ترقیاتی منصوبہ شروع نہیں کیا۔
جہاں تک ملتان میں تحریک انصاف کی مقبولیت کا تعلق ہے تویہ اب قصۂ پارینہ بن چکی ہے، وہ ارکان قومی اسمبلی جو عملاً استعفے دے چکے ہیں، منظر سے غائب ہیں جبکہ صوبائی اسمبلی کے ارکان بھی عوامی مسائل حل کرنے کی بجائے عوام سے دوری اختیار کئے ہوئے ہیں۔ عمران خان کے بیانیہ پر صرف پارٹی کو چلانے کی کوشش کی جارہی ہے حالانکہ عوام اپنے مسائل کا حل چاہتے ہیں، خاص طور پر ملتان میں سیوریج، صحت اور تعلیم کے حوالے سے ان گنت مسائل موجود ہیں جن کے ازالے کے لئے تحریک انصاف کے ذمہ داران کوئی بھی قدم اٹھانے سے گریزاں نظر آئے ہیں۔
پارٹی کی تنظیمی حالت بھی تنزلی کا شکار ہے، گروپ بندی کی وجہ سے مظاہروں میں بھی شرکت ٹولیوں کی صورت کی جاتی ہے اور اپنی اپنی دکان سجا کر یہ باور کرایا جاتا ہے کہ پارٹی پر ان کا اختیار ہے۔ شاہ محمود قریشی جو لانگ مارچ کی قیادت کررہے ہیں، اگر ملتان سے لانگ مارچ کی قیادت کرتے تو سب کو اندازہ ہوجاتا کہ بدانتظامی، گروپ بندی اور پارٹی میں نظم وضبط کے فقدان کی وجہ سے کیا صورتحال ہو چکی ہے۔ تحریک انصاف کے لانگ مارچ میں جنوبی پنجاب کا شریک نہ ہونا اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ یہ علاقہ بھی تحریک انصاف کے ہاتھوں سے نکل رہا ہے حالانکہ ماضی قریب میں تحریک انصاف نے اس علاقے کو مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی سے چھین لیا تھا۔
سیاسی طور پر پیپلز پارٹی ملتان اور جنوبی پنجاب میں ایک بار پھر مقبولیت حاصل کررہی ہے، وزیراعظم کے اس علاقے سے کئی معاونین خصوصی بنوا کر سید یوسف رضا گیلانی نے پیپلز پارٹی کو ایک نئی زندگی دی ہے۔ آج کل پیپلزپارٹی کے رہنماؤں کے یہاں ڈیرے آباد نظر آتے ہیں اور وفاقی حکومت کے محکموں سے متعلق عوام کے مسائل بھی حل کئے جارہے ہیں۔ پنجاب میں تحریک انصاف کی مخلوط حکومت ہونے کے باوجود صوبائی محکموں سے متعلق کاموں کے لئے عوام کو مشکلات کا سامنا ہے اور تحریک انصاف نے ایسا کوئی نظام وضع نہیں کیا کہ جس کے ذریعے عوامی مسائل کو حل کرنے کے لئے کوئی طریقہ کار موجود ہو۔ یہی وجہ ہے کہ تحریک انصاف کی مقبولیت میں ہرروز کمی آرہی ہے اور اگر یہی صورتحال رہی تو آنے والے انتخابات میں وہ سیاسی جماعت جو 2018 میں پہلے نمبر پر تھی اب شاید آخری نمبر پر نظر آئے۔ یہ بات تحریک انصاف کی قیادت کے لئے لمحۂ فکریہ ہونی چاہئے۔