• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

معاشی عدم استحکام: بروقت مشکل فیصلوں کی ضرورت

پاکستان میں ہر باشعور شہری ایک دوسرے سے یہ سوال کرتے نظر آرہا ہے کہ کیا پاکستان حالیہ سیاسی بھنور سے نکل پائے گا؟ نئے آرمی چیف کی تقرری کے بعد کیا اسٹیبلشمنٹ نیوٹرل رہ پائے گی ؟ ریاست کے دیگر ستون اسٹیبلشمنٹ کے نیوٹرل ہونے کے بعد قانون کے بالا دستی کیلئے اپنا کردار ادا کر سکیں گے ؟ سیاست دان پارلیمنٹ کو مقدم بنانے کے سلسلے میں متحرک ہوں گے یا ماضی کی طرح متنازعہ رہیں گے ؟ یہ بھی سوال کیا جا رہا ہے کہ کیا عمران خان نئے آرمی چیف کی تقرری تسلیم کر لیں گے ؟ وقت پرانتخابات اورنگران وزیر اعظم کی تقرری کے سلسلے میں یکسو ہوں گے؟ یا’’ مجھے اعتراض ہے‘‘ پر ڈٹے رہیں گے ؟

سیاسی حلقوں کا کہنا ہےکہ پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین سابق وزیر اعظم عمران خان کا لانگ مارچ کچھوے کی رفتار سے چلتے بل آخر وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں داخل ہو ہی جائے گا مگر ابھی تک نہ تو اسلام آباد کی انتظامیہ نے این او سی دیا ہے اور نہ ہی کسی عدالت نے انہیں داخلے کی اجازت دینے کی ہدایت کی ہے۔ سیاسی حلقوں کا کہناہے کہ 20 نومبر کے بعد ملک میں سیاسی استحکام کے روشن امکانات ہیں، بعض ذرائع اس خوش فہمی کا شکار ہیں کہ بظاہر ضدی نظر آنے والے’’ عمران خان ‘‘ باشعور سیاست دان کی طرح قانون کی بالا دستی کو تسلیم کرتے ہوئے آئین کے مطابق چلنے کی کوشش کریں گے۔ 

تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ ضمنی انتخابات میں نا قابلِ یقین کامیابی کے بعد عمران خان کو یقین ہو گیا ہے کہ اگر صحیح معنوں میں اسٹیبلشمنٹ نے واقعی سیاسی مداخلت سے کنارہ کشی اختیار کر لی ہے تو مستقبل پی ٹی آئی کا ہے جس کی بنیاد پر انہوں نے اپنے بیانیے پر نظر ثانی کرتے ہوئے امریکہ کے خلاف اپنے موقف سے پیچھے ہٹتے ہوئے مستقبل میں ساتھ چلنے کےعزم کا عندیہ دے دیا ہے جبکہ دوسری طرف عمران خان آرمی چیف کی تعیناتی پرشہباز شریف کی نواز شریف سے مشاورت کو مفرور سے مشورہ قرار دیتے ہوئے اسے سیکرٹ  ایکٹ کی خلاف ورزی کہتے ہیں اور اس کے خلاف قانونی کارروائی کرنے کا اعلان کر رہے ہیں۔ 

عمران خان کا کہنا ہے کہ پوری قوم سپریم کورٹ کی طرف دیکھ رہی ہے، اداروں کو تباہ کرنے والے کسی طرح بھی ملکی معیشت بہتر نہیں کر سکتے، نیشنل سیکورٹی کے اہم عہدے کا فیصلہ لندن میں ہورہا ہے ،مجھ پر تقرری متنازعہ بنانے کے الزامات لگائے جار ہے ہیں حالانکہ میں چاہتا ہوں کہ آرمی چیف میرٹ پر تعینات ہوں ، تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ 29 نومبر کو اپنی چھڑی نامزد آرمی چیف کے سپر د کر دیں گے ، آرمی چیف کون ہو گا؟ شنید ہے کہ اس کا باضابطہ فیصلہ ہو چکا ہے، اعلان وزیر اعظم شہباز شریف وزارت دفاع سے سمری ملنے کے بعد خود کریں گے جبکہ نواز شریف سے مشاورت سے متعلق سوال پر وزیر دفاع خواجہ محمد آصف کہہ چکے ہیں کہ ابھی تک مشاورت نہیں ہوئی، یوں تو نہ صرف وفاقی دارالحکومت بلکہ ملک کے دوسرے شہروں میں بھی موسم سرد ہو گیا مگر بدقسمتی سے سیاسی حالات میں گرمی موجود ہے اور بیک ڈور مذاکرات میں بظاہر کامیابی نظر نہیں آ رہی۔ 

وفاقی دارالحکومت میں 31 دسمبر 2022 کو ہونے والے بلدیاتی انتخابات کی سرگرمیاں شروع ہو گئی ہیں، کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال آخری مرحلے میں ہے۔ یوں تو نواز شریف سے لندن جا کر ملاقاتیں کی جارہی ہیں ، مریم نواز بھی اپنے باپ کی ہر ملاقات کا حصہ بنتی ہیں مگر نواز شریف کا علاج مکمل ہونے کی اطلاع کی تصدیق نہیں ہو پا رہی، نوازشریف جو ماضی میں وزیرا عظم کی حیثیت سے پانچ آرمی چیفس کا تقرر کر چکے ہیں اگر شہباز شریف نے ان سے نئے آرمی چیف کی تقرری کے سلسلے میں مشورہ کر لیا ہے تو اسے جرم نہیں سمجھا جانا چاہیے ،ان کے تجربات سے مستفید ہوکر مستقبل کیلئے اچھا فیصلہ کر لینے میں کوئی حرج نہیں۔ 

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے وفاقی وزیر میاں جاوید لطیف دسمبر کے تیسرے ہفتے میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کےقائد میاں محمد نواز شریف کی وطن واپسی کا عندیہ دے رہے ہیں ،ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ نواز شریف خود اپنی وطن واپسی کا باقاعدہ اعلان کریں گے ، پاکستان کی اتحادی حکومت نے سابق وزیر اعظم نواز شریف کو سفارتی پاسپورٹ تو جاری کر دیا ہے مگر انہیں اعلیٰ عدلیہ کی طرف سے اشتہاری قرار دیئے جانے کے فیصلے کے خلاف اپیل یا حفاظتی ضمانت کا عمل شروع نہیں کیا گیا، پارلیمنٹ ہاوس میں قومی اسمبلی کے اجلاس کے باوجود عملاً اپوزیشن تو موجود نہیں مگر وزیروں کا وطیرہ بھی قابل ستائش نہیں، قومی اسمبلی کے ایوان کی پہلی صف اجلاس کے دوران عموماً خالی ہی رہتی ہے اور ایوان میں بھی اکثر گنے چنے ممبر قومی اسمبلی موجود ہوتے ہیں، سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ سیاست دانوں کو اپنے کہے پر شرمندگی نہیں ہوتی، حقائق کو اپنی مرضی سے توڑ و مروڑ کر پیش کرنے کا جو فن پاکستانی سیاست دانوں کو آتا ہے اس کی مثال مشکل سے ملتی ہے، الیکٹرانک میڈیا پر حقائق دیکھائے جانے کے باوجود سیاست دانوں کو کوئی جھجک نہیں ہوتی، حکومت اور اے ٹی آئی کے تنازعہ میں عوام بدستور بلکہ پہلے سے زیادہ مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں جس کی باقاعدہ تصدیق سرکاری طور پر جاری کئے گئے عدادو شمار سے ہوتی ہے۔ 

اتحادی حکومت پانچ ،چھ ارب کے قرضے حاصل کر چکی ہے مگر معیشت کنٹرول نہیں ہوپارہی، ڈالر یوں تو 220 روپے کا نظر آتا ہے مگر کھلی مارکیٹ میں عملاً 250 روپےکا ہے ، آئی ایم ایف کا دبائو موجود ہے جسکا موقف ہے کہ پٹرول پر مزید ٹیکس لگائیں، یوٹیلیٹی سٹورز میں سبسڈی کم کریں، یوں تو درآمدات کم رہیں مگر برآمدات بھی ہدف کے مطابق پوری نہ ہو سکیں۔ بعض سیاسی حلقے یہ دعویٰ بھی کر رہے ہیں کہ پاکستان پیپلزپارٹی پی ڈی ایم میں شامل نہیں صر ف اتحادی حکومت میں شامل ہے اگر ’’لاڈلہ اب بھی لاڈلہ‘‘ ہے تو اتحادی حکومت کا اللہ ہی والی ہے، اسے گھر بھیجنے کیلئے زیادہ تگو و دو کی ضرورت نہیں۔ 

سیاسی حلقے ملک میں پر تشدد رحجانات کی حوصلہ شکنی کو ضروری سمجھتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ پوری سیاسی قیادت کو بلا تفریق تشدد کے خلاف نہ صرف کھل کر بولنا چاہیے بلکہ جارحانہ انداز اور موقف رکھنے والے کارکنوں کی سرزنش سے بھی گریز نہیں کرنا چاہیے۔ پاکستان کی سیاسی قیادت نے اس ضمن میں اپنا کردار ادا نہ کیا تو نہ صرف قوم سیاسی طور پر ایک دوسرے کی دشمن بن جائے گی بلکہ ایک دوسرے کو دیکھنے کی بھی روادار نہ رہے گی اور ملک میں خانہ جنگی کی کیفیت برپا ہو جائے گی۔ چاروں صوبوں اور وفاق کے زیر انتظام سیکیورٹی اداروں کو ایک دوسرے کے سامنے کھڑے کرنے کے رحجان کی بھی حوصلہ شکنی کی ضرورت ہے ، صوبائی حکومتوں کو اس پر زیادہ توجہ دینے کی کوشش کرنی چاہیے ۔ سیاسی قیادت کو ذہن میں رکھنا چاہیے کہ پر تشدد رحجانات کا سب سے زیادہ انہیں ہی سامنا کرنا پڑے گا۔

تجزیے اور تبصرے سے مزید
سیاست سے مزید