آسیہ عمران
معمولی کام ، مستقل جاری رکھا جائے تو زندگی بدل دیتا ہے ان کی کہانی کا نچوڑ تھا۔بتارہی تھیں بی اے کے بعد ہی بیاہ ہو گیا انٹر کے بعد سے تعلیم کے ساتھ ہی سرکاری ائیر لائن میں جاب بھی کر رہی تھی۔ پہلا بچہ نارمل نہیں تھا۔ سب سے اہم فیصلہ جاب چھوڑنے کا تھا کہ یہی بچہ کیرئیر کے بجائے اب میری اولین ترجیع تھا ،ناقابل بیان مسائل ،ہر دن نیا مسئلہ سامنے ہوتا اللہ کی دین تھی ان مسائل سے نپٹتے چھ ماہ میں ہی بہت بڑی ہوگئی تھی۔ گزشتہ لڑکی کا کہیں نام نشان نہ تھا بس ایک بوکھلائی ماں رہے گئی تھی ۔جسے خواب میں بھی بچہ ہی نظر آتا۔
سسرال کے مسائل، لوگوں کی باتیں، یکے بعد دیگرے دو مزید بچوں کی آمد، ہر وقت کی مصروفیت سب کچھ ہی چیلنجنگ تھا۔خود کو یکسر بھلانے کا نتیجہ چڑ چڑاہٹ ،بے زاری ،بچوں پر سختی کی صورت نکلا۔ جو کچھ ہو رہا تھا مجھے ایسا نہیں بننا تھا۔ میں تو بہت ٹھنڈےمزاج کی لڑکی تھی ،پھر مجھے چھوٹی سی چھوٹی بات پر غصہ کیوں آجاتا ہے۔ ہر وقت چڑچڑاپن کیوں رہتا ہے۔ اسی سوچ میں ایک فیس بک گروپ کو سہیلی کے کہنے پر جوائن کیا۔ گروپ کیا تھا دنیا کی ایک کھڑکی کھل گئی تھی۔ طرح طرح کے لوگ رنگا رنگ مسائل میں تھے اپنا بوجھ تو کہیں گم ہو گیا۔
اس رنگا رنگ دنیا کو دیکھ کر تو جیسے میں اپنے مسائل تو بھول ہی گئی۔ وقت نے جو کچھ سکھایا تھا دوسروں کے مسائل پر تبصروں کی صورت اظہار کیا۔ زندگی میں سبھی کچھ خوابوں اور اندازوں کے برعکس پا کر ٹو ٹتے بکھرتے لمحوں میں دوسروں کے مسائل کےادراک نے بہت کچھ سکھایا۔آہستہ آہستہ سب نارمل ہو رہا تھا۔دوسری تبدیلی لوگو ں کا اکنالج کرنا تھا۔ انھیں میرے مشورے پسند آنے لگے تھے ایک وقت آیا میرے تبصرے کی کمی محسوس کی جانے لگی نام مینشن کیا جانے لگا۔زندگی کا یہ پہلو شخصیت میں نکھار لایا۔ مزاج میں بھی تبدیلی آنے لگی، غصہ بھی کم ہو گیا تھا ۔ اب اپنے مسائل سے زیادہ دوسروں کے مسائل میں لگے رہنا حل تلاش کرنا ،تجربہ کاروں سے مشورہ کرنا ،ایک بڑی تبدیلی کا آغاز تھا۔
ایک دن ایڈمن کا فون آیا وہ گزارش کر رہی تھیں میں گروپ کی ایڈمن میں شامل ہو جاؤں ۔میں تو یہ فون سن کر بہت خوش ہوئی ،کبھی ایسا سوچا بھی نہ تھا کہ کاموں اور مسائل کا انبار تھا لہٰذا منع کر دیا۔ وقتا فوقتاً اصرار سے آخر ان کی بات مانی ہی پڑی ۔ لاکھ سے زائد افراد کا گروپ مصروفیت کو بڑھا گیا کہ ذمہ داری کو پورا کرنا تھا ۔ کچھ سائیکالوجسٹس کو جوائن کیا ۔ مسائل بڑھنے کے ساتھ سیکھنے کا عمل زندگی کا لازمی حصہ بن گیا تھا ۔ مسائل، غور وفکر ، حل کی کوشش ، آسانی دینا، مقصد بنتا چلا گیا۔آہستہ آہستہ مجھے اس کام میں مزید دل چسپی ہونے لگی۔
یہ کام کرنے میں مزہ آنے لگا ۔ الگ سے شخصیت سازی کے گروپ کی ضرورت محسوس ہوئی مجھے شخصیت ساز لوگوں کو اس میں ایڈ کرنا تھا سو وہ بھی بن گیا ۔ اب بھی مسائل بے تحاشا، مصروفیت بے پناہ ہے لیکن سکینت ،عزت واحترام ، لوگوں کی محبت، قدردانی نے تشفی کو بڑھا دیا ہے اب مسائل بوجھ نہیں ٹریننگ کا ذریعہ ہیں۔ یہ سب نئی سہیلی سے سنتے ایک الگ ہی دنیا میں پہنچی تھی ۔ باتوں ہی باتوں میں کئی چیزیں اس نے مجھے بھی سکھا دیں۔ ایک احساس جو اس گفتگو کا نچوڑ تھا کہ خدمت تو فطرت اور گھٹی میں رکھی گئی ہے، جس سے سکینت کا پودا توانائی پاتاہے۔ ادراک یہ بھی ہواکہ کسی وقت کی تلاش اوراٹھایا جانے والا ایک چھوٹا سا مثبت قدم بھی ایک وقت کسی بڑے نتیجے پر پہنچاتا ہے۔
میرے ساتھ بھی تو یہی ہوا تھا،سماجی رابطے کی ویب سائٹ فیس بک کے استعمال کی ابتدا کرتے طے کیا تھا کہ، روزانہ چند مثبت جملے پوسٹ لازمی کیا کروں گی ۔ پہلا موضوع آٹھ لائنوں پر مشتمل ’’مومن کی مثال شہد کی مکھی‘‘ تھا جو بعد میں طویل کرکے ایک رسالے میں چھپا ۔ وہ چوبیس گھنٹوں میں میرے نام کے بغیر کئی جگہ گھومتے دیکھ کر حوصلہ بڑھا گیا۔ اور اس طر ح یہ سلسلہ آگے بڑھتا رہا ۔دو یو ٹیوبر بچوں کی کہانی کل ہی سنی جو کھیل ہی کھیل میں کوئی اچھا سا میسیج کریٹ کرتے تھے ۔ ایک دن والد نے غور کیا ان بچوں میں کافی سمجھداری اور پختگی کا عنصر تھا۔ آج وہ ایک بڑی مقبول اخلاقی سیریز کے کردار ہیں۔
معلوم ہوا کھیل میں کرنے والے کام بھی دراصل آپ کا مستقبل طے کر رہے ہوتے ہیں ۔لہٰذا چھوٹے سے کھیل ،چھوٹی سی عادت ،چھوٹی سی سرگرمی بھی ہلکا لینے والی شے نہیں ہے۔ گزشتہ ہفتے ایک ٹریننگ سیشن میں ٹرینر نے بڑی اہم بات کی نشاندھی کی کہ ٹیچر کا انتظامیہ سے چھپ کر کسی بھی ممنوع فعل کو کرنا۔ چاہیے وہ فون کا استعمال ہی کیوں نہ ہوبچوں میں بد دیانتی کے بیج بو دیتا ہے ۔یہ بدیانتی اس کے مقام بڑھنے کے ساتھ اوپر سے اوپر چلی جاتی ہے۔ یوں بدیانتی کی جڑیں پورے معاشرے میں پھیل جاتی ہیں۔
ایک طالبہ یاد ہے جو دوران کلاس بھی کسی کاپی پر پینٹنگ میں مصروف ہو جاتی تھی۔ آج ایک بہترین پینٹر ہے۔ ایک کلاس فیلو جو خود سے ٹوٹے پھوٹے اشعار کہنے کی کوشش کرتے ہنسایا کرتیں ۔آج ایک شاعرہ کے روپ میں ہیں۔کہنے کو سب انتہائی معمولی عمل تھے مستقل مزاجی نے نتائج بڑے دئیے ۔اور یہی عمل آج سب کی منفرد پہچان ہے ۔یہی وجہ ہے بچوں کا کوئی چھوٹا سا غلط عمل ڈرا دیتا ہے۔ ذرا سی بات پر جھوٹ بولتے ، احترام و مروت سے عاری بچوں میں کل کی بڑی ہولناک تصویر نظر آتی ہے۔
بچہ ہو یا بڑا آج جو قدم اٹھا رہا ہے چاہے وہ مثبت ہے یا منفی آج اگر وہ پہلا قدم ہے تو کل اس کے لئے ویسی ہی ایک اچھی یا بھیانک منزل بھی ہے۔جدید دنیا کی زبان میں اسی کو ’’اِسنو بال ایفیکٹ کا نام دیا گیا ہے ۔ ایک برفیلے پہاڑ سے برف کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا گرنا شروع ہوتا ہے تو نیچے آنے تک اپنے ساتھ باقی برف کو ملاتا اتنا طاقتور ہو جاتا ہے کہ، کئی بستیوں کو تباہی سے دوچار کردیتا ہے ۔وہ تمام افراد جو کسی بھی جگہ کے امین ہیں۔ سب راعی ہیں جن سے ان کی رعیت کے متعلق ضرور سوال ہوگا اپنے کیے کا نتیجہ کسی جگہ ضرور سامنے آئے گا۔ آپ نے جو ستائش، رجحانات ، عزائم ، خواب، جذبے ، ترجیحات ، اسلوب اختیار کیے۔ وہ آج نہیں تو کل کسی مقام پر آپ کےاستقبال کی تیاری میں ہیں، جس نے نفرت ،بے توجہی ، بے رحمی ،بد سلوکی ، بد زبانی کی فصل بوئی تو کل کئی گنا بڑھ کر کاٹنی بھی ہے ۔
ہمارے گھر کے سامنے ہائی ٹینشن لائن ہے درستگی کے لئے ان تاروں کو اتارا گیا۔ کچھ ہی دیر میں دیکھا بڑے ،بچے سبھی ان پر جھپٹ رہے ہیں مجھے اس بات سے خوف آیا کہ ہم ڈاکؤؤں اور لٹیروں کے درمیان ہیں جنھیں صرف ایک موقع کی ضرورت ہے۔ کچھ دیر بعد پولیس آکر بمشکل تار وں کو محفوظ بنانے میں کامیاب ہوتی ہے۔ پنجاب کے ایک روڈ ایکسیڈنٹ کے بعد ایک عجیب واقعہ دیکھنے میں آیا۔ گنوں کا ٹرالر ایکسیڈنٹ سے الٹا پڑا تھا۔ ڈرائیور زخمی ، دوسری طرف بچے کھینچ کر گٹھوں میں سے گنے لے رہے تھے ۔یہ لوگ جو گرتی تاریں ،الٹے ٹرالر لوٹتے ہیں۔ ان میں کردار کی کمی نہیں بلکہ بلنڈر ہے، جس کا ہم احساس بھی نہیں کر پا رہے۔ یاد رہے آنے والا وقت وہ ہے، جس کے بیج آپ آج بو رہے ہیں۔