کراچی (ٹی وی رپورٹ) صدر اسلام آباد ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن شعیب شاہین نے کہا ہے کہ صدر مملکت آئین کے آرٹیکل 48کے تحت آرمی چیف کی تقرری کی وزیراعظم کی ایڈوائس واپس بھیج سکتے ہیں۔
اسی حوالے سے وفاقی وزیر توانائی خرم دستگیر خان کا کہنا تھا کہ صدر اس میں تاخیر کرسکتے ہیں مگر انہیں وزیراعظم کی ایڈوائس ماننا ہی پڑے گی۔
ان خیالا ت کا اظہار جیو نیوز کے پروگرام ”کیپٹل ٹاک“ میں میزبان حامد میر سے گفتگو کرتے ہوئے کیا گیا۔
خرم دستگیر خان کا کہنا تھاکہ صدر مملکت قانونی طور پر آرمی چیف کی تعیناتی پر عمران خان سے مشاورت نہیں کرسکتے ،آرمی چیف وہی بنیں گے جن کی ایڈوائس وزیراعظم کریں گے، پاکستان میں صدارتی نظام آمریت کا کوڈ ورڈ ہے.
جنرل باجوہ اور عمران خان دونوں اپنی قیاس آرائیاں کررہے ہیں، دونوں حضرات کو کہنا چاہئے کہ ہم یقینی بنائیں گے کہ 2018ء کا الیکشن ہر لحاظ سے صاف و شفاف اور غیرآئینی مداخلت سے پاک ہوگا،نئے آرمی چیف کیلئے سب سے بڑا چیلنج اپنے ادارے کو آئینی حدود میں رکھنا اور دوسرے اداروں کو آئین کی حدود میں رہنے کا سگنل دینا ہوگا۔
شعیب شاہین نے کہا کہ وزیراعظم نئے آرمی چیف کیلئے لیفٹیننٹ جنرل عاصم منیر کو نامزد کرتے ہیں تو یہ غیرآئینی و غیرقانونی ہوگا، یہ اس لئے غلط ہوگا کہ نئے آرمی چیف کی تقرری کا نوٹیفکیشن جس دن موثر ہوگا اس دن ان کا جاب میں رہنا ضروری ہے، جنرل باجوہ نے پچھلے سال فروری تک سیاست میں فوج کی مداخلت قبول کرلی ہے، پچھلے سات آٹھ مہینے کا کنڈکٹ دیکھیں تو کیا ہم کہہ سکتے ہیں کہ سیاست میں مداخلت ختم ہوگئی ہے.
نئے آرمی چیف کیلئے سب سے بڑا چیلنج معیشت کی بحالی ہوگا،فوج جس دن حقیقی طور پر غیرسیاسی ہوجائے گی ملک میں سکون آجائے گا۔
وفاقی وزیر توانائی خرم دستگیر خان نے کہا کہ صدر مملکت قانونی طور پر آرمی چیف کی تعیناتی پر عمران خان سے مشاورت نہیں کرسکتے ، عمران خان کی بات انتہائی لغو ہے کہ صدر آرمی چیف کی تقرری پر ان سے مشورہ کریں گے، وزیراعظم آرمی چیف کی تعیناتی کا جو فیصلہ کریں گے صدر آئین کے تحت اسے ماننے کے پابند ہیں.
صدر وزیراعظم کے فیصلے کی منظوری دینے میں تاخیر کرسکتے ہیں لیکن انکار نہیں کرسکتے، صدر مملکت نے فیصلہ کرنا ہے کیا وہ گورنر پنجاب والی تلخ تاریخ دہرائیں گے، صدر مملکت کا گورنر خیبرپختونخوا کی تقرری پر فوراً ایڈوائس ماننا اچھی بات ہے۔
خرم دستگیر خان کا کہنا تھا کہ صدر مملکت سمری روک کر ملک میں مزید فتنہ فساد پھیلانا چاہتے ہیں تو پھیلادیں، آرمی چیف وہی بنیں گے جن کی ایڈوائس وزیراعظم کریں گے، وزیراعظم اور وزیردفاع کے پاس کسی بھی افسر کو برقرار رکھنے کا اختیار ہے.
وزیراعظم نے اگر آرمی چیف کیلئے لیفٹیننٹ جنرل عاصم منیر کو نامزد کیا اور صدر مملکت نے سمری واپس کردی تو اس کے باوجود کہ عاصم منیر 27نومبر کو ریٹائر ہورہے ہیں وزیراعظم انہیں جاب میں برقرار رکھ سکتے ہیں۔
خرم دستگیر خان نے کہا کہ توقع ہے آرمی چیف کی تعیناتی کا معاملہ اگلے چند دنوں میں بااحسن طریقے سے حل ہوجائے گا، عدالتوں میں کسی بھی معاملہ کو چیلنج کیا جاسکتا ہے، سیاسی جماعتوں کو آگے بڑھنا ہے تو ایک دوسرے کو ڈاکو، کافر اور غدار کہنا چھوڑنا ہوگا.
سیاسی جماعتوں نے فوج کے سیاست میں کردار پر ہمیشہ تنقید کی مگر عمران خان کی طرح کسی نے فوج کیلئے میر جعفر، میر صادق، غدار اور جانور کے الفاظ استعمال نہیں کیے، سیاستدانوں اور فوج کے ساتھ عدلیہ کو بھی اپنی آئینی حدود کا احترام کرنا ہے، عدلیہ سے بھی ایسے فیصلے آئے جنہوں نے سیاست کو توڑمروڑ کر رکھ دیا۔