• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ریکوڈک کیس، پاکستان کے نظام انصاف میں بہتری بڑا چیلنج، سپریم کورٹ

اسلام آباد(نمائندہ جنگ) عدالت عظمیٰ میںʼʼ ریکوڈک کے جوائنٹ وینچر کے نئے معاہدہ ʼʼسے متعلق ریفرنس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس ،عمر عطاء بندیال نے ریمارکس دیئے ہیں کہ نظام انصاف میں بہتری کے لیے بہت سے اقدامات کیے گئے ہیں، نتائج کچھ وقت کے بعد ہی نظر آئیں گے۔پاکستان کے نظام انصاف میں بہتری ہمارے لیے بڑا چیلنج ہے،فارن انویسٹمنٹ کی کوئی حد مقرر نہ ہوئی تو مجوزہ قانون سازی سے نیا پنڈورا باکس کھل جائے گا،غیر ملکی سرمایہ کاروں کو بھی پاکستان کے نظام انصاف پر اعتماد کرنا چاہیے، چیف جسٹس ،عمر عطاء بندیال کی سربرا ہی میں قائم پانچ رکنی لارجر بینچ نے بدھ کے روز ریفرنس کی سماعت کی تو بیرک گولڈ کمپنی کے وکیل مخدوم علی خان نے اپنے دلائل کو آگے بڑھاتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ ریکوڈک منصوبے سے مال جیسے ہی پورٹ پر پہنچے گا پچاسی فیصد ادائیگی ہوجائے گی، ریکوڈک منصوبے کے مال کی بقیہ پندرہ فیصد ادائیگی منزل پر پہنچ کر مارکیٹ ریٹ اور کوالٹی کے مطابق ہوگی،اگر ریکوڈک منصوبے سے کاپر اور سونے کے علاوہ کوئی معدنیات نکلی تو اس کا طریقہ کار بھی معاہدے میں درج ہے، اگر ریکوڈک منصوبے سے کوئی نایاب معدنیات نکلی تو حکومت مارکیٹ ریٹ پر خرید لے گی، ریکوڈک سے سونے اور تانبے کے علاوہ کوئی اور دھات نہیں نکلے گی، لیکن اگر ریکوڈک سے یورینیم اور پلاٹینیم جیسی اسٹرٹیجک دھاتیں نکلیں تو پاکستان کو بلامعاوضہ ملیں گی، اس منصوبے کیلئے اگر زمین حاصل کی گئی تو ادائیگی کمپنی کرے گی جبکہ حکومت اسے صرف سہولت فراہم کرے گی،انہوں نے بتایا کہ مرکزی شاہراہوں کی تعمیر اور مرمت حکومت جبکہ نوکنڈی سے پراجیکٹ تک سڑک کی تعمیر کمپنی کے ذمے ہوگی،بیرک گولڈ کمپنی فزیبلٹی اسٹڈیز پر 240 ملین ڈالرز خرچ کرے گی،مجوزہ شاہراہیں صرف پراجیکٹ والے ہی نہیں ؟ عام عوام بھی استعمال کرسکیں گے۔انہوں نے کہاکہ بارڈر، صوبے اور ضلع میں سیکیورٹی فراہمی حکومت کی ذمہ داری ہوگی جبکہ پراجیکٹ کے اندر سیکیورٹی کمپنی کے ذمے ہوگی،بیرک گولڈ کمپنی ریکوڈک سے گوادر 680 کلومیٹر طویل زیرِ زمین پائپ لائن بچھائے گی، بندرگاہ پہنچنے پر دھاتوں کوپانی سے الگ کر کے بیرونِ ملک ریفائن ہونے کے لیے بھیج دیا جائے گا، انہوں نے کہاکہ منصوبے کی کنسٹرکشن کا ایک فیصد جبکہ سالانہ آمدن کا 0.4 فیصد سماجی شراکت داری پر خرچ ہوگا،ریکوڈک منصوبے کی تعمیر پر 7500 جبکہ آپریشنز پر 4000 نوکریاں ملیں گی، کمپنی ریکوڈک منصوبے کو مکمل شفاف اور قانون کے مطابق کرنا چاہتی ہے، اگر حکومت کوئی رعایت ختم کرتی ہے تو وہ خفیہ نہیں بلکہ پبلک نوٹس کے ذریعے کھلے عام فیصلہ کرے گی، جسٹس منیب اختر نے سوال کیا کہ ریکوڈک منصوبے میں پچاس فیصد شیئرز پاکستان کے ہیں کسی تنازعہ سے پاکستان کو بھی اثر پڑے گا۔چیف جسٹس نے کہاحکومت پاکستان جو کرے وہ بین الاقوامی قوانین کو مدنظر رکھ کر کرے ورنہ کمپنی پھر عالمی ثالثی فورم پر چلی جائے گی، پاکستان کے عدالتی نظام اور عالمی نظام انصاف میں بہت فرق ہے، فاضل وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ بیشتر ممالک نے سرمایہ کاروں کے تنازعات ختم کرنے کے لیے وزارت خارجہ میں قانونی مشیر مقرر کررکھے ہیں، اس معاہدے میں بھی کسی قانونی سقم سے بچنے کے لیے شفافیت کا خاص خیال رکھا گیا ہے،معاہدے میں پاکستانی حکومت اور پارلیمنٹ کی بالادستی پر کوئی سمجھوتا نہیں ہوگا،اگر حکومت یا پارلیمنٹ معاہدے میں غیر ملکی کمپنی کودی گئی رعایت واپس لینا چاہے تو اسے پبلک کیا جائے گا،یہ نہیں ہوسکتا کہ ایک سیکشن افسر نوٹیفکیشن نکال کر دی گئی رعایت واپس لے لے ، تاہم رعایت واپس لینے پر غیر ملکی کمپنی بین لاقوامی ثالثی عدالت سے رجوع کرنے کا حق محفوظ رکھے گی۔
اہم خبریں سے مزید