• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آئندہ کے فیصلے، وزیراعظم کا اتحادی جماعتوں سے ’’اعتماد کا ووٹ‘‘

اسلام آباد(فاروق اقدس/ تجزیاتی رپورٹ) پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے اپنی جماعت سے وابستگی رکھنے والے صدر مملکت کے منصب پر فائز ڈاکٹر علوی کی پوزیشن کو نہ صرف متنازعہ بنا دیا ہے بلکہ انہیں ان کے منصب کے حوالے سے آزمائش اور امتحان میں بھی ڈال دیا ہے۔

یہ صورتحال اس وقت پیدا ہوئی جب بدھ کو عمران خان نے ایک نجی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے بعض سوالوں کے جواب میں کہا کہ میں پارٹی کا سربراہ ہوں اور صدر نئے آرمی چیف کی تقرری کے حوالے سے مجھ سے بات ضرور کریں گے، وہ میرے رابطے میں ہیں۔

 عمران خان کا کہنا تھا کہ میں نے اور صدر نے فیصلہ کیا ہے کہ سمری آنے کے بعد ہم قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے مل کر کھیلیں گے۔

 عمران خان کی جانب سے صدر مملکت کے بارے میں ان ریمارکس پر شدید ردعمل سامنے آرہا ہے اور خود پاکستان تحریک انصاف کے بعض ارکان بھی اپنی قیادت کی جانب سے ان ریمارکس کو غیر ذمہ دارانہ اور صدر کے منصب پر فائز شخصیت کیلئے پریشان کن قرار دے رہے ہیں۔

 ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ چیئرمین کی جانب سے اتنے حساس اور اہم معاملے پر مل کر کھیلنے جیسے الفاظ ان کی غیر سنجیدگی اور شخصیت کی ناپختگی کی غمازی کرتے ہیں جبکہ تحریک انصاف کے مخالف اپنے ردعمل میں عمران خان پر تنقید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ریٹائر ہونے والے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے بعد اب اپنی ہی جماعت کے صدر مملکت کو متنازعہ بناکر ان کے منصب پر تنقید کا موقعہ اور جواز فراہم کرنے والے عمران خان انہیں اپنے کھیل میں شامل کرنے میں کسی طور بھی کامیاب نہیں ہوسکیں گے۔

 اس سے قبل وزیراعظم شہباز شریف کی جانب سے گورنر پنجاب (سابق) عمر چیمہ کی برطرفی کیلئے صدر علوی کو بھیجی جانے والی ایڈوائس بھی یکسر مسترد کر دی تھی اور اس موقعہ پر بھی یہ تاثر عام تھا کہ صدر مملکت کو اس کھیل میں عمران خان نے ان کے تحفظات کے باوجود شامل کیا تھا۔

 دوسری طرف وزیراعظم شہباز شریف جو امکانی طور پر آج جمعرات کو اپنی مصروفیات سے فارغ ہوکر ترکیہ کے دورے پر روانہ ہو جائیں گے اور آج اپنے اہم فیصلوں کے تناظر میں انہوں نے بدھ کی شب وزیراعظم ہاؤس میں عشائیے کے موقعہ پر حکومت میں شامل اور پارلیمنٹ ہاؤس میں نمائندگی رکھنے والی تمام جماعتوں کے سربراہان اور قائدین سے ان اقدامات اور اہم فیصلوں کیلئے ’’اعتماد کا ووٹ‘‘ لے لیا ہے جس کا اظہار ان قائدین نے اس موقعہ پر مختصر الفاظ میں ان پر حمایت کرتے ہوئے کیا۔

اہم خبریں سے مزید