• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایم کیو ایم نے بھی رہنمائی کیلئے جنرل باجوہ سے رابطہ کیا تھا

فائل فوٹو
فائل فوٹو

اسلام آباد (انصار عباسی) رواں سال کے آغاز میں، ایم کیو ایم نے بھی سابق آرمی چیف جنرل (ر) باجوہ سے رابطہ کیا تھا اور ان سے یہ رہنمائی چاہی تھی کہ سابق وزیراعظم عمران خان کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کیے جانے کی صورت میں پارٹی کو سیاسی لحاظ سے کس کا انتخاب کرنا ہے۔ 

ذرائع کا کہنا ہے کہ فروغ نسیم نے جنرل باجوہ سے رابطہ کرکے ان سے رہنمائی طلب کی تھی لیکن انہوں نے جواب دیا کہ اس بات کا فیصلہ آپ خود کریں کہ ایم کیو ایم اور اس کی سیاست کو کیا موزوں لگتا ہے۔ 

حال ہی میں ق لیگ کے رہنما اور وزیراعلیٰ پنجاب پرویز الٰہی اور ا نکے بیٹے مونس الٰہی نے کہا تھا کہ انہوں نے سابق آرمی چیف سے عمران خان کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک کے معاملے پر رابطہ کیا تھا اور انہیں بتایا گیا کہ عمران خان اور پی ٹی آئی کا ساتھ دیں۔

 سابق آرمی چیف کی جانب سے ق لیگ کی سینئر قیادت کی جانب سے کیے گئے دعوے کے بارے میں کوئی تردید جاری نہیں کی گئی حالانکہ ان کے کچھ قریبی ذرائع نے حال ہی میں کہا تھا کہ مونس الٰہی نے جو کچھ کہا تھا وہ اس معاملے کے سیاق و سباق سے ہٹ کر کی گئی تشریح ہے جس پر مباحثہ ہوا تھا۔

 دلچسپ بات یہ ہے کہ عمران خان نے بھی حالیہ مہینوں کے دوران متعدد مرتبہ کہا ہے کہ انہوں نے سابق آرمی چیف سے کہا تھا کہ اپوزیشن کی عدم اعتماد کی تحریک سے ان کی حکومت کو بچایا جائے۔ 

ق لیگ کے رہنماؤں کے دعوے کے حوالے سے خان نے ایک ٹی وی انٹرویو میں کہا تھا کہ ق لیگ کے پرویز الٰہی کے دھڑے کو کہا گیا ہوگا کہ پی ٹی آئی کا ساتھ دیں جبکہ وہ سمجھتے ہیں کہ چوہدری شجاعت کی زیر قیادت دوسرے دھڑے سے کہا گیا ہوگا کہ مخالفین کا ساتھ دیں۔ 

خان نے باجوہ پر ڈبل گیم کا الزام عائد کیا لیکن پرویز الٰہی کا اصرار ہے کہ سابق چیف نے ڈبل گیم نہیں کھیلی۔ 

وزیراعلیٰ پنجاب نے کہا کہ باجوہ نے کبھی چوہدری شجاعت سے اُن دنوں میں رابطہ نہیں کیا تھا۔ بعد میں ایک ٹی وی ٹاک شو میں چوہدری شجاعت نے بھی تصدیق کی کہ ان سے جنرل (ر) باجوہ نے اُن دنوں میں کبھی رابطہ نہیں کیا۔

 رواں سال 10؍ مئی کو دی نیوز نے خبر دی تھی کہ اپنی حکومت کے آخری دنوں میں عمران خان نے ملٹری اسٹیبلشمنٹ سے کہا تھا کہ اس وقت کی اتحادی جماعتوں (ق لیگ، ایم کیو ایم اور بی اے پی) سے رابطہ کرکے ان سے کہیں کہ حکومت نہ چھوڑیں۔

 تاہم، اس درخواست پر دھیان نہ دیا گیا کیونکہ ملٹری اسٹیبلشمنٹ فیصلہ کر چکی تھی کہ سیاسی معاملات سے دُور رہے گی۔

 خان کو توقع تھی کہ ملٹری اسٹیبلشمنٹ ان کی حکومت میں شامل اتحادی جماعتوں کو اپوزیشن کی عدم اعتماد کی تحریک کا حصہ بننے سے روکے گی۔ جب ایسا نہ ہوا تو یہ بات عمران خان کو بہت بری لگی کیونکہ ماضی میں وہ ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی بے مثال حمایت کا مزہ لے چکے تھے۔ جب اُن کی حکومت میں شامل بیشتر اتحادیوں نے اپوزیشن کی عدم اعتماد کی تحریک میں ساتھ دینے کا فیصلہ کیا تو اس وقت کے وزیراعظم نے اپنے وزیر دفاع پرویز خٹک کے ذریعے فوج کی اعلیٰ قیادت کے ساتھ رابطہ کیا تاکہ اپوزیشن کے ساتھ ممکنہ معاہدے کے حوالے سے دستیاب امکانات پر غور کیا جا سکے۔

 جس وقت عمران خان اور ان کی پارٹی کے کچھ رہنماؤں کا اصرار تھا کہ عمران خان تک آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی نے آپشنز پہنچائے تھے، لیکن دوسری سائیڈ کا اصرار تھا کہ فوجی قیادت نے اپوزیشن کے آپشنز اس وقت کی حکومت تک نہیں پہنچائے، اس کی بجائے، سویلین حکومت (بنیادی طور پر وزیر دفاع پرویز خٹک) نے اعلیٰ فوجی قیادت کو فون کیا اور ان سے کہا کہ ملاقات کرکے موجودہ سیاسی منظرنامے پر بات چیت کی جائے۔ پرویز خٹک کی ٹیلی فون پر کی گئی درخواست کے بعد ، سابق آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی نے وزیراعظم عمران خان سے ملاقات کی تھی۔

 اس ملاقات میں سویلین اور ملٹری قیادت کے درمیان تین آپشنز پر بات ہوئی تاکہ عدم اعتماد کی تحریک کو روکا جا سکے لیکن اپوزیشن نے صرف اس بات پر اتفاق کیا کہ وزیراعظم استعفےٰ دیں اور قومی اسمبلی تحلیل کریں۔ خان اس کیلئے تیار نہ تھے۔

اہم خبریں سے مزید