اسلام آباد(نیوز ایجنسیاں، مانیٹرنگ ڈیسک) چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا ہے کہ نیب ترامیم سے فائدہ صرف ترمیم کرنے والوں کو ہی ہوا.
نیب قانون کے غلط استعمال سے کتنے لوگوں کے کاروبا ر تباہ ہوچکے، کرپشن پر کسی صورت معافی نہیں ہونی چاہیے، ترامیم نامکمل اسمبلی نے کیں، اس نکتے پر کوئی قانون نہیں ملا کہ ایسی اسمبلی قانون سازی کرسکتی ہے، عدالتی فیصلوں کے باوجود کرپشن ختم نہیں ہوسکی،صوبے میں 5ماہ بعدآئی جی اور تین ماہ میںایس ایچ او بدل جاتا ہے، جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ فوج کے خلاف بات نہ کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ کرپشن پر ان کے خلاف کارروائی نہیں ہوسکتی.
جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کرپشن کی رینکنگ میں پاکستان 80 ویں نمبر پر ہے،جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دئیے کہ نیب ترامیم کے بعد پاکستان یقیناً 100 نمبر نیچے چلا جائیگا۔
سپریم کورٹ میں نیب ترامیم کے خلاف چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان کی درخواست پر چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس منصور علی شاہ پر مشتمل 3 رکنی بینچ نے سماعت کی۔ عمران خان کے وکیل نے بتایا کہ ایگزیکٹو اپنا کام نہ کرے تو لوگ عدالتوں کے پاس ہی آتے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ نیب ترمیم اس اسمبلی نے کیں جو مکمل ہی نہیں، اس نکتے پر قانون نہیں ملا کہ نامکمل اسمبلی قانون سازی کر سکتی ہے یا نہیں، سیاسی حکمت عملی کے باعث آدھی سے زیادہ اسمبلی نے بائیکاٹ کر رکھا ہے۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ نیب ترامیم سے فائدہ صرف ترمیم کرنے والوں کو ہی ہوا، چند افراد کی دی گئی لائن پر پوری سیاسی پارٹی چل رہی ہوتی ہے، لائن کو فالو کریں تو اس کا فائدہ صرف چند افراد کی ذات کو پہنچتا ہے، نیب ترمیم کی ہدایت کرنے والوں کو اصل میں فائدہ پہنچا، کیا ایسی صورتحال میں عدلیہ ہاتھ پر ہاتھ رکھے تماشا دیکھتی رہی ؟
نیب ترامیم کو بغیر بحث جلد بازی میں منظور کیا گیا، ترامیم کی نیت ہی ٹھیک نہ ہو تو آگے جانے کی ضرورت ہی نہیں۔چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ عدالتی فیصلوں کے باوجود کرپشن ختم نہیں ہوسکی، مسئلہ صرف کرپشن کا نہیں سسٹم میں موجود خامیوں کا بھی ہے، سسٹم میں موجود خامیوں کو کبھی دور کرنے کی کوشش ہی نہیں کی گئی، پارلیمان کا کام ہے سسٹم میں بہتری کیلئے قانون بنائے اور عمل بھی کرائے، پر صوبے میں پانچ ماہ بعد آئی جی اور تین ماہ بعد ایس ایچ او بدل جاتا ہے
ایگزیکٹو فیصلے کرتے وقت قانون پر عمل نہیں کیا جاتا۔چیف جسٹس نے کہا کہ ماضی میں ریکوڈک اور سٹیل ملز کے فیصلے عدالت نے اچھی نیت سے کیے، حکومت سسٹم کی کمزوری کے باعث منصوبوں میں کرپشن پکڑ نہیں سکی، نیب قانون کے غلط استعمال سے کتنے لوگوں کے کاروبار تباہ ہوچکے ہیں، کرپشن پر کسی صورت معافی نہیں ہونی چاہیے۔چیف جسٹس نے کہا کہ ملک میں بہت سے معاملات میں بہتری بھی آئی ہے، خوش آئند بات یہ بھی ہے کہ پاکستان میں میڈیا آزاد ہے اور سچ سامنے لاتا ہے۔
دوران سماعت جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کرپشن کی رینکنگ میں پاکستان 80 ویں نمبر پر ہے جو نیب ترامیم سے پہلے تھا۔جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دئیے کہ نیب ترامیم کے بعد اب جو رینکنگ جاری ہوگی اس میں پاکستان یقینا سو نمبر نیچے جا چکا ہو گا، جب سسٹم تباہ ہو رہا ہو تو عدلیہ مداخلت کرتی ہے۔