• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میزبان: محمد اکرم خان

ایڈیٹر، جنگ فورم، کراچی

رپورٹ: سلیم اللہ صدیقی

مقررین : سید شبر زیدی ( سابق چیئرمین ایف بی آر)

ڈاکٹر اقدس افضل (اسسٹنٹ پروفیسر، اکنامکس/ پروگرام ڈائریکٹر، سوشل ڈیولپمنٹ اینڈ پالیسی،حبیب یونی ورسٹی)

ثناء توفیق (اکنامسٹ/سینئر اینالسٹ، عارف حبیب لمیٹڈ) 

  2022 میں پاکستان کو خود مختار قرضوں کے ڈیفالٹ کا سامنا نہیں ہے، پاکستان کو جس مسئلہ کا سامنا ہے وہ یہ ہے کہ اس کے پاس اپنی ضروری درآمدات کے لیے بھی ڈالر نہیں ہے یہ ایک پریکٹیکل سی کنٹری ڈیفالٹ ہے ملک کا ڈیفالٹ نہیں ، توانائی کی بچت کرتے ہوئے دن کی روشنی کا استعمال کریں، تمام بازار شام چھ بجے بند کریں تین بلین ڈالرکا خرچ بچے گا، 

سید شبر زیدی
سید شبر زیدی

پابندی لگائیں کہ کوئی بھی بڑی لگژری گاڑی ہفتے میں تین دن سڑک پر نظر نہیں آئے گی، اس سے 300 سے 500 ملین ڈالر کی بچت ہوگی، عمرہ اور زیارتوں پر سیلف فنانس کریں اس پر ہمارا ڈھائی بلین ڈالر کا خرچ ہے، پام آئل پر بھاری ڈیوٹی لگائیں ہم اپنا بنولے کا تیل جانوروں کو کھلارہے ہیں اور پام آئل درآمد کررہے ہیں پام آئل پر ڈیوٹی اور مقامی خوردنی بیجوں کی صنعت کے لیے چھوٹ دی جائے اس سے 500ملین ڈالر کی بچت ہوگی،تھرکول اور مقامی کول انڈسٹری پاکستان کو ایک بلین ڈالر کی بچت دے رہی ہے ان پر انحصار بڑھائیں ایل این جی میں دو بلین ڈالر کی بچت ہوگی،تمام غیرملکی وفود اور دوروں پر پابندی لگائیں

سید شبر زیدی

ڈی فالٹ کا منبع ہمیشہ سیاسی عدم استحکام ہوتا ہے،سیاسی مداخلت نظام حکومت میں اتنی بڑھ جاتی ہے کہ وہاں کے فیصلہ ساز معیشت کے حوالے سے سخت اور مشکل فیصلے کرتے ہوئے گھبراتے ہیں کیوں کہ پھر اس کا جوابی ردعمل آتا ہے،جو ہم سب نے ابھی پاکستان میں بھی دیکھا۔ 

ڈاکٹر اقدس افضل
ڈاکٹر اقدس افضل

آئی ایم ایف ہمارے ساتھ نویں ریویو میں ہے جسے وہ ملتوی کرتے جارہے ہیں، اس سے یہ شبہات جنم لینے لگے کہ وہ پاکستان سے خوش نہیں ہیں وہ ہمارے ٹرانس ریلیز نہیں کریں گے جس سے ہمارے فارن ایکسچیج پر دباؤ آئے گا لیکن ایسی کوئی بات نہیں ہے۔

آئی ایم ایف ہمارے ساتھ آن لائن کسی اور فسکل فریم ورک پر کام کررہا ہے جو سیلاب کے بعد ری سیٹ ہوگیا ہے، سی ڈی ایس ڈیفالٹ کی وجہ نہیں ،ہمارے کرنٹ اکاوئنٹ کی صورت حال مستحکم ہے، فسکل صورت حال پر بھی آئی ایم ایف مدد کررہا ہے۔ ان تین وجوہ کی وجہ سے میں کہتا ہوں پاکستان آج کل یا اگلے سال ڈیفالٹ نہیں کرے گا

ڈاکٹر اقدس افضل

جب بھی ہمارے بانڈ کی ادائی کاوقت آتا ہے تو افراتفری کی صورت حال بن جاتی ہے، اس مرتبہ شورکی زیادہ وجہ اقتصادی حالات کابہتر نہ ہونا ہے ڈیفالٹ خبروں کی تردید نہیں کروں گی، مالی صورت حال پرسب کو تشویش ہے۔ 

ثناء توفیق
ثناء توفیق 

جس کی پہلی بڑی وجہ پاکستان میں گزشتہ کئ ماہ سے جاری مسلسل سیاسی عدم استحکام ہے، جس نے غیر ملکی سرمایہ کاروں میں منفی خدشات پیدا کئے ہیں، ہمارے پاس پیسے آنے کا سلسلہ رکا ہوا ہے، پریشانی کی وجہ آئی ایم ایف کا ریویو ہے، جو بار بار زیر التوا ہورہا ہے، جس کی وجہ آئی ایم ایف کے تحفظات ہیں، آئی ایم ایف سے پیسے ملنے میں تاخیر ہورہی ہے تو دیگر انویسٹرز، ڈونرز بھی رقم دینے کے حوالے سے سوچنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ وہ قرضہ دیں یا نہ دیں، اس عدم توازن نے سرمایہ کاروں کو تشویش میں مبتلاکردیا ہے۔ پاکستان کی اقتصادی صورت حال تشویش ناک ہے، ڈیفالٹ بہت سخت لفظ ہے، ڈیفالٹ نہیں نظر آرہا

ثناء توفیق 

آج کا ہمارا موضوع ہے پاکستانی معیشت پر ڈی فالٹ کے خطرات، بدقسمتی سے ہمارے ٹاک شوز میں معیشت پر اچھی گفتگو کم ہوتی ہےسارازور سیاست پر رہتا ہے۔ سوشل میڈیا پر ٹرینڈ چلا پاکستان کا ڈیفالٹ رسک 94فیصد ہوگیا ہے جس کے بعد خوف کی فضا پیدا ہوگئی، اعتماد بحا ل کرنے کے لیے وفاقی وزیرخزانہ اسحق ڈار نے پریس کانفرنس کی اور کہا کہ بلومبرگ کے مطابق یہ ڈیفالٹ رسک 10فیصد ہے 94 فیصد نہیں، انہوں نے یہ کہ کرقوم اور حکومت دونوں کو حوصلہ دیالیکن یہ بحث موجود ہے کہ پاکستان دیوالیہ ہونے جارہا ہے ان خدشات میں کتنی حقیقت ہے اور کون سے اشارے ہیں۔

اگر ڈی فالٹ کرجاتا ہے تو اس کاہماری زندگی ، پاکستان اور پاکستان کی معیشت پر کیااثرات ہوں گے، ہمیں ایسے کون سے اقدامات کرنا ہوں گے جس سے ہم ان حالات سے بچ جائیں۔ موجودہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی موجودگی سے خزانے پر کا کیا اثر پڑ ا ہے، پاکستان میں نئی سرمایہ کاری ،ریمی ٹینس، درآمدات برآمدات کی اصل حقیقت کیا ہے کیوں کہ اس کا براہ راست تعلق آپ کے ڈیفالٹ ہونے یا نہ ہونے سے ہے۔

ان تمام خدشات امکانات پر روشنی ڈالنے کے لیے ہمارے ساتھ موجود ہیںسید شبر زیدی صاحب( سابق چیئرمین ایف بی آر)،ڈاکٹر اقدس افضل صاحب (اسسٹنٹ پروفیسر، اکنامکس پروگرام ڈائریکٹر، سوشل ڈیولپمنٹ اینڈ پالیسی، حبیب یونی ورسٹی) اور محترمہ ثناء توفیق (اکنامسٹ/سینئر اینالسٹ، عارف حبیب لمیٹڈ) ہم اپنے درمیان موجود ماہرین سے یہ ہی معلوم کرنے کی کوشش کریں گے۔

جنگ: پاکستان ڈی فالٹ کرنے جارہا ہے؟ سوشل میڈیا پر جاری پر اس بحث کی وجہ کون سے اشارے ہیں اور اس میں کیا حقیقت ہے؟

ثنا توفیق: جس ڈی فالٹ کی آج کل بات ہورہی ہے وہ ڈیفالٹ ساورن بانڈ کاہے۔ پاکستا ن کو جب پیسے کی ضرورت پڑی تو اس نےقرضے کےلیے غیر ملکی اداروں سے رابطہ کیا اور ان سے پیسے مانگے، جب کسی سے قرض لیا جاتا ہے تو وہ کسی فائنینشل انسٹرومنٹ کے تحت ملتے ہیں آسان الفاظ میں اسے بانڈ کہتے ہیں، جب آپ یہ کسی بین الاقوامی پلیٹ فارم پر جاری کرتے ہیں تو اسے انٹرنیشنل بانڈ کہا جاتا ہے اسی بانڈ کی ادا کرنےکی تاریخ پانچ دسمبر ہے جو قریبا ایک ارب ڈالر ہےاگراس میں سود لگایا جائے تو مجموعی طور پر قریباً ایک اعشاریہ صفر آٹھ ارب ڈالر بنتا ہے۔ 

اچانک ڈی فالٹ کا ذکر شروع ہونے کی وجہ یہ ہے کہ جب بھی ہمارے بانڈ میچورٹی کی تاریخ نزدیک ہوتی ہے اس کی ادائی کاوقت آتا ہے تو افراتفری سی صورت حال بن جاتی ہے، اس مرتبہ شورکی زیادہ وجہ ہماری اقتصادی حالات کا بہتر نہ ہونا ہے میں ان خبروں کی تردید نہیں کروں گی، مالی صورت حال پرسب کو تشویش ہے، جس کی پہلی بڑی وجہ پاکستان میں گزشتہ کئ ماہ سے جاری مسلسل سیاسی عدم استحکام ہے، جس نے غیرملکی سرمایہ کاروں میں منفی خدشات پیدا کئے ہوئے ہیں وہ حالات دیکھ کر اس اندیشے میں مبتلا ہیں کہ کیا یہ ملک ہمارے قرضے بروقت ادا کرسکتا ہے، بروقت ادا کرنے کی صلاحیت ، یہ نوٹ کرنے والی اہم بات ہے۔ پاکستان کے پاس اسٹیٹ بینک میں اپنے ریزرو سات سے آٹھ ارب ڈالر کے قریب ہیں، اس میں سے ہمیں ایک ارب ڈالر دینے ہیں،تو اس کے بعد ہمارے پاس سات سے ساڑھے چھ ارب ڈالررہ جائیں گے۔ کیا ہم یہ پیسے بروقت ادا کرسکیں گےیا نہیں یہاں سےڈی فالٹ کی بات شروع ہوئی۔

میرے خیال میں پاکستان فی الحال یہ رقم ادا کردے گا مسئلہ ا گلی رقم کو دینے کا ہورہا ہےجو رواں مالی سال میں مزید ادا کرنی ہیں، کرنٹ اکاوئنٹ کا خسارہ اور دوسرا مزید ری پیمنٹ ہےاس حوالے سے اہم مسئلہ نظرانداز نہیں کرنا چاہیے، پھر آپ کے پاس پیسے آکہاں سے رہے اوردوسرا جاکہا ںرہے ہیں، ہمارے پاس پیسے آنے کا سلسلہ رکا ہوا ہے، آئی ایم ایف ہمیں پیسے دینے کا اہم ذریعہ ہے، بدقسمتی سے ہمیں ہر مرتبہ آئی ایم ایف سے مدد لینی پڑتی ہے، ابھی پریشانی کی وجہ آئی ایم ایف کا ریویو ہے، جو بار بار زیرالتواہورہا ہے، جس کی وجہ آئی ایم ایف کے تحفظات ہیں، آئی ایم ایف سے پیسے ملنے میں تاخیر ہورہی ہے تو دیگر انویسٹرز، ڈونرز بھی رقم دینے کے حوالے سے سوچنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ وہ قرضہ دیں یا نہ دیں، تو ایک طرف فنڈ آنے میں مشکلات ہیں اور دوسری طرف ہماری اگلی پیمنٹ کا وقت قریب ہے۔

اس عدم توازن نے سرمایہ کاروں کو تشویش میں مبتلا کردیا ہے یہ ہی ڈی فالٹ کے خدشات کی خبروں میں تیزی کی وجہ ہے۔ یہ سی ڈی ایس( کریڈٹ ڈیفالٹ سوائپ) سے بات نکلی ہے اگر کوئی غیرملکی ہمارا بانڈ لیتا ہے تو وہ اس پر انشورنس مانگتا ہے، غیریقینی صورت حال کی وجہ سے انشورنس بہت مہنگی پر رہی ہے، یہ ہے پوری ڈی فالٹ کے حوالے سے خبروں کی حقیقت۔

اسٹیٹ بینک کی حالیہ مانیٹری پالیسی رپورٹ میں گورنراسٹیٹ بینک نے کہا ہےکہ ہم ایک ارب ڈالرکی پے منٹ وقت سے پہلے کردیں گے، ہم نے وہ دینے کے لیے بھی کہیں سے فنڈ کا بندوبست کیا ہے، یعنی بندوبست کرکے کہیں سے فنڈ آتا ہے اور پے منٹ پر چلاجاتا ہے۔ سوال یہ ہے ابھی تک ہمارا ملک 75 برسوں میں اس قابل کیوں نہیں ہوا کہ وہ اپنے وسائل سے یہ ادائی کرسکے۔

جنگ: ہمارے اپنے وسائل سے کیا مراد ہے یہ ہیں کیا؟

ثنا توفیق: ملکی وسائل سے مراد سے اہم ٹیکس آمدنی اسے بڑھانے کی ضرورت ہے، یہاں نان ٹیکس بڑامسئلہ ہے، بدقسمتی سےآمدنی میں شارٹ فال کا سامنا ہے، دوسری طرف اپنی آمدنی سے زیادہ کے اخراجات، مثلا ہماری آمدنی ہزار روپے اور اخراجات 1500 تو اس پانچ سو کے لیے ہم قرضے لے رہے ہیں۔ ملکی ذرائع کے قرضوں سے تو نمٹ سکتے ہیں لیکن غیر ملکی قرض جو ڈالر کی صورت میں ملتے ہیں اسے واپس کرنے کےلیے ڈالر ہی چاہیے جو ہم کمانہیں پارہے، ہمیں کسی نہ کسی طرح ڈالر کمانا پڑیں گے۔

ڈاکٹر اقدس افضل :ڈی فالٹ خطرہ پاکستان کو نہ آج ہے نہ کل ہے اور نہ اگلے سال ہوگا، ڈیفالٹ کے ذکر کا بار بار ہونے کی وجہ کے کچھ اور محرکات ہیں، میرا خیال ہے ڈی فالٹ کے خطرے کے مسلسل ذکر کا تعلق پاکستانی معیشت سے نہیں ہماری سیاست سے ہے۔ ایک خاص سیاسی جماعت جنہوں نے اپنی سیاسی حکمت عملی کا یہ بنیادی حصہ بنا لیا ہےوہ ہر گفتگو میں پاکستان کےڈی فالٹ ہونے کی بات کررہے ہیں تاکہ ایسی قوتوں کو ایسے لوگوں یہ بات بارآور کرائی جائے کہ ان کی جماعت کو ملکی فیصلہ سازی میں واپس لایا جائے۔

جنگ: آپ یہ کیسے کہہ رہے میں ڈی فالٹ کا ذکر سیاسی حربہ ہے؟

ڈاکٹر اقدس افضل : میں ایک سو دس فیصد کہتا ہوں کہ ڈی فالٹ کی بات صرف اپنی سیاست کرنے کے لیے کہی جارہی ہے، میں یہ کیوں کہہ رہاہوں کہ پاکستان ڈی فالٹ کرنے نہیں جارہا ابھی کریڈٹ ڈی فالٹ سوائپ کی بات ہوئی، یہ وہ قدرہے پاکستان جس سے قرضہ لے رہا ہے پھر اس قرض کا بیمہ کرے گا، یہ اس بیمے کی قیمت ہے۔

فرض کریں کہ میں ایک ادارہ ہوں پاکستان مجھ سے 100روپےقرض مانگنے آتا ہے اور میں سوچتا ہوں کہ ان کے حالات تو بڑے خراب ہیں قرض کس طرح واپس کریں گے تو میں شبر زیدی کے پاس اس قرض کی انشورنس لینے جاتا ہوں، یہ کہتے ہیں کہ پاکستان اور دنیا کے حالات بڑے خراب ہیں میں آپ کے سوروپے کی انشورنس پر 95روپے لوں گا۔ کریڈٹ ڈی فالٹ سوائپ بذات خودڈی فالٹ کے خدشات نہیں ہیں، 95روپے اس قرض کا انشورنس ہے،ڈی فالٹ  کے خدشات یا امکانات نہیں۔

میں نے ڈی فالٹ  کے حوالے سےیونان ، سری لنکا لبنان کے حالات کو پڑھا ہے،ڈی فالٹ کا منبع ہمیشہ سیاسی عدم استحکام ہوتا ہے، سیاسی حالات سیاسی مداخلت نظام حکومت میں اتنی بڑھ جاتی ہے کہ وہاں کے فیصلہ ساز معیشت کے حوالے سے وہ فیصلہ نہیں کرپاتےجو انہیں کرنے ہوتے ہیں، وہ بڑے سخت اورمشکل فیصلے کرتے ہوئے گھبراتے ہیں کیوں کہ پھر اس کا جوابی ردعمل آتا ہے، جو ہم سب نےا بھی پاکستان میں بھی دیکھا۔

کرنٹ اکاوئنٹ سے مراد پاکستان کی بیرونی پوزیشن ہے اب اگر ہم کرنٹ اکاوئنٹ کا جائزہ لیں۔ پچھلے سال پاکستان کا کل کرنٹ اکاونٹ خسارہ 17اعشاریہ چار بلین ڈالر تھا یہ ہماری تاریخ کا دوسرا دوسرا بڑا زیادہ نمبر ہے۔ اسٹیٹ بینک نے ابھی چار مہینے کے جولائی سے اکتوبر کےاعداد و شمار جاری کیے ہیں، اس کے مطابق پاکستان کا کرنٹ اکاوئنٹ خسارہ 46 فیصد سکڑ گیا ہے، اس کا سہرا سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل اور موجود وزیرخزانہ اسحاق ڈار جاتا ہے وہ ٹھیک منصوبہ بندی سے کرنٹ اکاوئنٹ خسارے کو کم سے کم کررہے ہیں اور اگر اسی پالیسی سے کام ہوتا رہا تو میرے اندازے کے مطابق ہمارا کرنٹ اکاوئنٹ خسارہ9 اعشاریہ پانچ بلین ڈالر آئے گاجو بہت بڑی کامیابی ہوگی، میں نے اس میں تیل کی قیمتیں 20فیصد کم کرکے ڈالی ہیں، حکومت کا اپنا اندازہ 12بلین ہے۔ تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ پاکستان کو کوئی لیکوڈیٹی کے مشکل کا سامنا ہو، ہمارا کرنٹ اکاوئنٹ خسارہ بہت بہتر پوزیشن میں ہے۔

ڈی فالٹ  کے ذکرکی تیسری وجہ ہےکہ آئی ایم ایف ہمارے ساتھ نویں ریویو میں ہے جسے وہ باربار ملتوی کررہے ہیں،اس سے یہ شبہات جنم لینے لگے کہ وہ پاکستان سے خوش نہیں ہیں وہ ہمارے ٹرانس ریلیز نہیں کریں گے جس سے ہمارے فارن ایکسچیج پر دبائو آئے گالیکن ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ آئی ایم ایف ہمارے ساتھ آن لائن کسی اور فسکل فریم ورک پر کام کررہا ہے جو سیلاب کے بعد ری سیٹ ہوگیا ہے، سی ڈی ایس ڈیفالٹ کی وجہ نہیں ،ہمارے کرنٹ اکاوئنٹ کی صورت حال مستحکم ہے، فسکل صورت حال پر بھی آئی ایم ایف مدد کررہا ہے۔

ان تین وجوہات کی وجہ سے میں کہتا ہوں پاکستان آج کل یا اگلے سال ڈی فالٹ نہیں کرے گا۔ لیکن دوسری طرف عوام کے مسائل کاکرنٹ اکاوئنٹ،فسکل اکاوئنٹ ،ریمی ٹینس ،ایکسپورٹ سے تعلق نہیں، ان میں تین چیزیں ہیں مہنگائی، روزگار اور غربت ان پر کوئی بات نہیں کرتا پاکستان اس معاشی حالات میں بے تحاشا مسائل ہیں، مہنگائی بے قابو ہے 26.6 پر مہنگائی پہنچی ہوئی ہے، اس سے سماجی مسائل پیدا ہوگئے ہیں،نئے روزگار کے مواقع نہیں ہیں یہاں نوجوا ن کثیر تعداد میں ہیں ، ملک میں گیارہ بارہ کروڑ آبادی 21سال سے کم عمر کی ہے۔

جنگ: ڈالر میں آمدنی کا اضافہ نہ ہونا بڑا مسئلہ ہے ہماری درآمدات نہیں بڑھ رہی ،ترسیلات زر میں کمی آئی ہے سرمایہ کاری کی سطح نہایت کم ہےتو کیا کرنا چاہیے؟

ڈاکٹر اقدس افضل : یہ گزشتہ75سال کا دیرینہ مسئلہ ہے،کسی ایک حکومت کے بس کی بات نہیں اس کا کوئی قلیل مدتی حل بھی نہیں۔ اگر ہم آج پانچ سالہ ایکسپورٹ پروموشن حکمت عملی بنائیں جس میں صنعت میں ایکسپورٹ کے بجائے ہیومن کیپیٹل میں سرمایہ کاری کریں، اپنے ورکر کی تعلیم صلاحیت اور صحت کو بہتر کریں، اسے بہترماحول دیں ہم جلد دیکھیں گے اس معاشرے میں پیداواری صلاحیت بہتر ہونا شروع ہوجائے گی اور یہاں پر ویلیو ایڈڈ چیزیں بننا شروع ہوجائیں گی۔

شبرزیدی: ساورن ڈی فالٹ اس وقت ظاہر ہوتا ہے جب کسی ملک کی حکومت قرض دہندگان کو واپس کرنے کے قابل نہیں ہوتی ہے، میں دوہزار انیس میں عمران خان حکومت کا حصہ تھا اور دو ہزار انیس میں چھوڑ بھی دیا تھا۔16دسمبر2021 کو میں نے ہمدرد یونی ورسٹی میں ایک تقریرکرتے ہوئے کہا تھا پاکستان ایک دیوالیہ ملک ہے، سابق وزیرخزانہ مفتاح اسماعیل نے بھی کہا تھا کہ ہم نے پاکستان کو دیوالیہ ہونے سے بچالیا، تو میں اس بات سے اتفاق نہیں کرتا کہ دیوالیہ کا شور صرف سیاست ہے۔

دیوالیہ ہونے سے کوئی ملک صفحہ ہستی سے نہیں مٹتا کوئی بم نہیں پھٹے گا ہم دنیا کے نقشے پرر ہیں گے ارجنٹائن ،لبنان یوکرین اور روس وہ ملک ہیں جنہوں نے حالیہ برسوں میں اپنے قرضے ادا نہیں کیے وہ موجود ہیں۔ میں سابق اور موجودہ وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل اور اسحاق ڈار کی بات پر یقین کررہا ہوں کہ ہم ساورن ڈی فالٹ ڈیبٹ پر نہیں جارہے، لیکن آج ملکی صورت حال یہ ہے کہ بینک ایل سیز نہیں کھول رہے یہ ڈی فالٹ نہیں تو کیا ہے، ہمیں ایکسپورٹ کے لیے خام مال برآمد کرنا ہیں لیکن ہماری ایل سیز نہیں کھولی جارہی یہ ہے ڈی فالٹ۔

آپ ویب سائیٹ پرمئی دوہزار بائیس کی آئی ایم ایف کی رپورٹ پڑھیں جس کا صفحہ نمبر35 اور ٹیبل 3اے ہے اس میں انہوں نے پاکستان کے اگلے پانچ سال کی پروجیکشن رپورٹ جاری کی ہے کہ پاکستان میں کتنا ڈالر آئےگا اور کتنا ڈالر جائے گا، اس کے مطابق پاکستان کی51 بلین ڈالر کی ایف بی آئی آئے گی یہ بہت بڑا جھوٹ ہے کیوں کہ پاکستان کی تاریخ میں اتنی بڑی سرمایہ کاری کبھی نہیں آئی اور نہ آسکتی ہے ہمیں سیاست دان نہیں آئی ایم ایف بیوقوف بنا رہا ہے۔

آج ہی کی خبر ہے ٹی ٹی پی اور حکومت کے درمیان سیز فائر ختم ہوگیا ہے، جس ملک میں سیزفائر ہورہا ہے وہاں کیسے ایف بی آئی ائے گی کیاوہ بیوقوف ہیں۔ ہمیں جو کرنا چاہیے وہ یہ کہ ہمیں درآمدات بڑھانی ہیں اور برآمدات گھٹانی ہے۔ ہماری یونی ورسٹیوں میں کئی اچھے لوگ ہیں لیکن اس رپورٹ پر کسی نے کچھ نہیں لکھا۔ سری لنکا میں سول وار تھی نسلی تنازعات تھے اور ناکام چینی سرمایہ کاری تھی یہ تینوں عوامل ہمارے پاس بھی ہیں، سری لنکاکی درآمدات برآمدات توازن میں نہیں تھی ہماری بھی نہیں ہیں، ہم دوہزار اٹھارہ کا نواز حکومت کا20 ملین ڈالر کاکرنٹ اکاوئنٹ خسارہدوہزار بیس میں زیرو پر لے آئے تھے۔

ہمیں 2022 میں پاکستان کی خود مختار قرضوں کےڈی فالٹ کا سامنا نہیں ہے کیوں کہ اس پر صرف 130بلین ڈالرکا قرض ہے جس کے لیے یقین دہانیاں مل سکتی ہیں یاسود کی دعدم ادائیگی سمیت رول اوورہوسکتا ہے، تاہم پاکستان کوجس مسئلہ کا سامنا ہے وہ یہ ہے کہ اس کے پاس اپنی ضروری درآمدات کے لیے بھی ڈالر نہیں ہے یہ ایک پریکٹیکل سی کنٹری ڈی فالٹ ہے ملک کاڈی فالٹ نہیں لیکن حکومت کسی افراتفری سے پہلےصورت حال کو تسلیم کرنے کے لیے تیار ہو، میرے پاس نمٹنے کے لیے آٹھ حل ہیں جو عملی طور پر کل شام میں ہوسکتے ہیں، پہلا حل، توانائی کی بچت کرتے ہوئے دن کی روشنی کا استعمال کریں ، تمام بازار شام چھ بجے بند کریں اور توانائی بچائیں اس سے میرے حساب سےتین بلین ڈالر بچے گا۔

دوسرا ،آپ اعلان کریں اور پابندی لگائیں کہ کوئی بھی بڑی لگژری گاڑی ہفتے میں تین دن سڑک پر نظر نہیں آئے گی پٹرول مہنگا کرنے سے یہ مسئلہ حل نہیں ہوگا امیر افراد 500 روپے لٹرپر بھی لیں گے فرانس میں ابھی ایساہورہا ہے۔ اس سے 300 سے 500ملین ڈالر کی بچت ہوگی،تیسرا ، عمرہ اور زیارتوں پر سیلف فنانس کریں اس پر ہمارا ڈھائی بلین ڈالر کا خرچ ہے، آپ نے عمرے یا زیارت پر جانا ہے آپ کا بیٹا یا کوئی قریبی باہر سےٹکٹ بھیجے گا آپ جائیں۔

جنگ : عمرہ یا زیارت پر پابندی نہیں کیا آپ اسے سیلف فنانس سے کرنے کی سفارش کررہے ِ ہیںِ؟

شبر زیدی: جی ہاں پہلےحج ایسے ہی ہوتا تھا ہم کیوں اپنے ڈالر خرچ کریںسیلف فنانس سے ہمیں اپنے ڈالر بچانے کے لیے یہ اقدامات کرنے پڑیں گے۔چوتھا، پام آئل پر بھاری ڈیوٹی لگائیں ہم اپنا بنولے کا تیل جانوروں کو کھلارہے ہیں اور پام آئل درآمد کررہے ہیں پام آئل پر ڈیوٹی اور مقامی خوردنی بیجوں کی صنعت کے لیے چھوٹ دی جائے اس سے 500 ملین ڈالر کی بچت ہوگی۔ پانچواں، تھرکول اور مقامی کول انڈسٹری پاکستان کو ایک بلین ڈالر کی بچت دے رہی ہے ان پر انحصار بڑھائیں ان پر ہرطرح کی ڈیوٹی اور ٹیکس ختم کریں وہ ایل این جی میں دو بلین ڈالر کی بچت دے گی۔

چھٹا،پاکستان کو اقتصادی طور پر دوحصوں میں تقسیم کریں شمالی اور دوسرا جنوبی پاکستان،شمالی پاکستان پیداواری کھپت کے لیے کام کرے اورجنوبی پاکستان سے درآمدات پر کام ہو بنگلہ دیش ماڈل کی طرح، بنگلہ دیش میں کپاس نہیں ہوتی وہ اسے برآمد کرتا ہے اور ٹیکسٹائل کے ذریعے آگے درآمد کردیتا ہے، لیکن اسی وقت ہوگا جب آپ کا درآمدی سامان بندرگاہ کے قریب ہو، جب تک آپ جنوبی پاکستان کو ترقی نہیں دیں گےآپ کی درآمدات نہیں بڑھ سکتی۔

یہ نہیں ہوسکتا کہ میں پہلے خام مال یا انرجی فیصل آباد لے کر جائوں پھرتیاری کرکے درآمد کرنے کےلیے واپس کراچی لائوں یہ بلاوجہ ہے، اور آخر میں تمام غیرملکی وفود اور دوروں پر پابندی لگائیں میرے اندازے کے مطابق قریباً 20 ائرلائیز روزانہ پاکستان سے باہر دبئی جاتی ہیں اس میں آدھے افراد گھومنے جارہے ہوتے ہیں وہ قریبا ساڑھے سات سو ملین ڈالردبئی بغیر کسی وجہ کے خرچ کرتے ہیں اسے بند کریں، غیرملکی کرنسی میں ائیرلائنز کی لاگت کو کم کرنے کے لیے بیرون ملک پرواز کرنے والی مقامی ائیر لائنز کے لیے بالواسطہ ٹیکسوں سے چھوٹ دی جائے۔

ہمیں ان تجاویز عمل درآمدکرنا پڑے گا اس سے غریبوں پر کوئی فرق نہیں پڑے گا یہ صرف پاکستان کے امیروں کی عیاشیاں ہیں ، امیر یہ کرکے غریب پاکستانیوں کو مارنا چاہتے ہیں۔ میرے خیال میں ہم چاہیں تو ہرطرح کے ڈیفالٹ سے پاکستان کو بچا سکتے ہیںا ور اگر ہم جوں کا توں رکھیں گے ایسا نہیں کریں گے اسے کوئی بھی نہیں بچاسکتا۔

جنگ: آپ کے خیال میں اس طرح کتنی بچ ہوسکے گی؟

شبر زیدی: اندازاً چھ بلین ڈالر کی بچت ہوسکتی ہے۔

جنگ: آئی ایم ایف سے ہم اتنا ہی قرض لیتے ہیں؟

اقدس افضل: شبر زیدی صاحب کی تجاویز اچھی ہیں لیکن ہمارے یہاں فیصلہ سازی کی طاقت اشرافیہ کے ہاتھ میں ہے اور یہ نکات اسی طبقے کو متاثر کررہے ہیں تو وہ کبھی یہ پابندی نہیں لگائیں گے، پاکستان کی اقتصادی حالت عالمی حالات و واقعات کے ساتھ جڑی ہے، چین امریکا کے تعلقات دونوں ممالک میں افراط زر ان تمام چیزوں میں پاکستان کی معیشت بہت چھوٹی چیز ہے۔میرے خیال میں ملک میں انتخابات اگلے سال اکتوبر میں ہوں گے تو ہماری معیشت چلانے والوں کے پاس بہت محدود اختیار ہے جس پر وہ کام کرسکتے ہیں، اول اپنے اخراجات کم کرنے پڑیں گے کرنٹ اکاوئنٹ خسارہ اسے قابو میں رکھنا پڑے گاجیساکہ کیا گیا اور آئی ایم ایف کو ساتھ لے کر چلنا پڑے گا۔

یہ ہی دو چار چیزیں اگلے سال اکتوبر تک ہماری بقا کی ضامن رہے گی۔میں محترم وزیرخزانہ سے کہوں گا کہ ابھی کسی قسم کی پالیسی تجربے کا وقت نہیں ہے کہ ابھی معمول کے کاروبار دوست پالیسی کے ساتھ کام جاری رکھیں دھیرے دھیرے سیاست میں استحکام آئے، نئے الیکشن کے بعدحکومت قائم ہو تو جو تجاویز شبر زیدی نے دی اس پر آنے والی نئی حکومت عمل درآمد کرے کیوںکہ موجودہ حکومت کے پاس سخت اور مشکل فیصلے لینے کا مینڈیٹ نہیں ہے۔

ثنا توفیق : میں شبرزیدی کی تجاویز سے اتفاق کرتی ہوں، پہلا برآمدات کم کرنے کے لیے غیر ضروری چیزوں کوآنے سےروکیں موجودہ حکومت نے ایسا ہی کیا ہے، جو بھی حکومت ہوتی اسے ہر صورت یہ ہی کرنا تھا کرنٹ اکاوئنٹ بتارہا تھا پاکستان ڈیفالٹ پر ہے۔ دوسرا ایکسپورٹ میں اضافہ ہونا چاہیے لیکن وہاں کوئی پیش رفت نہیں ہے ،تیسری بات، ہمارا ترسیلات زر پر انحصاررہتا ہے اس پر بھی کمی نظرآرہی ہے جو تشویش کی بات ہے، فسکل اکاوئنٹ کی جانب ہمیں اسٹرکچر ریفارمز کی ضرورت ہے، موجودہ حکومت نے سبسڈیز پرجرات مندانہ فیصلہ لیا آخر ہم عالمی منڈی سے مہنگاتیل خرید کر سستا کیسے بیچ سکتے ہیں، موجودہ حکومت نےضرورت کے مطابق ٹھیک فیصلے کیے آئندہ بھی ایسے ہی اقدامات کرنے کی ضرورت ہوگی پاکستان کو گرداب سے نکالنے کے لیے بروقت جرات مند فیصلوں کی ضرورت ہے۔

شبر زیدی: اب باتوں کا وقت نہیں ہے اگر ہم نے جلد مشکل اور سخت عملی اقدامات نہ کیے ہمیں کوئی ڈیفالٹ سے نہیں بچاسکتا ہماری سول سوسائٹی قلم کار دانشور بولیں کہ یہ کرنا ہے بصورت دیگر ہم دنیا سے بھیک مانگتے رہیں گے۔

اسامہ: ایک تجویز میں باہر جاکر پیسے خرچ کرنے پر پابندی کی بات کی گئی ہے تو پھر ہم اپنے کمائے پیسے کہاں خرچ کریں گے۔

شبر زیدی: ملک میں ڈالر کی قلت ہے اپنے پیسے مری سوات جاکر خرچ کریں دبئی جاکر نہ اڑائیں،آپ بیرون ملک کسی عزیز سے ڈالر کا بندوبست کرکے خرچ کرلیں گھومنے پر پابندی نہیں ڈالر کو بچانے کی کوشش ہے، آپ روپے میں خرچ کریں۔

شرجیل: یہاں شارٹ ٹرم پالیسی کا ذکر ہوا ہماری لانگ ٹرم پالیسی کیا ہونی چاہیے؟

شبر زیدی: پاکستان کاعلاج صرف برآمدات میں کمی سے اور درآمدات زیادہ سے زیادہ بڑھانے میں ہے، ٹیکسٹائل ہمارا بڑا درآمدی آئٹم ہے لیکن ہمارے پاس اچھی کاٹن نہیں، تو پہلے کاٹن امپورٹ کرنی پڑتی ہے پھر ہم ٹیکسٹائل بناتے ہیں پھر اسے ایکسپورٹ کرتے ہیں، تو اس کے لیے فیصل آباد میں انڈسٹری مناسب نہیں ہمیں بنگلہ دیش کی طرح اسے کراچی میں لگانا پڑے گی۔ پاکستان میں اب تک کوئی مناسب مکمل آئی ٹی پارک نہیں اگر آپ نے اپنی آئی ٹی میں کاروبار کو بڑھانا ہے تو آئی ٹی انفرااسٹرکچرکی سہولت دینی پڑیں گی اس طرح کی طویل المیعاد پالیسی لانی پڑی گی۔

آپ کی ویلیوایڈڈ ایکسپورٹ اس وقت تک نہیں بڑھیں گی جب تک آپ کی خواتین جوپاکستان کی آبادی کاپچاس فیصد ہے کام نہیں کریں گی، ٹیکسٹائل انڈسٹری میں کام کرنے والی ہمیشہ خواتین ہوتی ہیں پاکستان وہ بدقسمت ملک ہے جہاں کام کرنے والی خواتین کی تعداد پچھلے تیس سال میں کم ہوئیں ہیں، کراچی کے لانڈھی، کورنگی اور شیرشاہ انڈسٹریل ایریاکے دروازوں پر انتہا پسند مذہبی درسگاہیں ہیں جو خواتین کو انڈسٹری داخل نہیں ہونے دیتے، یہی حال فیصل آباداور لاہور کا بھی ہے ان حالات میں کوئی مڈل کلاس عور ت مزدری نہیں کرسکتی تواگر آپ اپنا سماجی رہن سہن بہتر نہیں کریں گے تو پاکستان کا ایکسپورٹ کبھی نہیں بڑھے گا، بنگلہ دیش کی کامیابی کی بڑی وجہ وہاں کام کرنے والی خواتین ہیں۔

حمزہ: سابق وزیرخزانہ مفتاح اسماعیل کی پالیسی ٹھیک تھی تو انہیں تبدیل کرنے کی کیوں ضرورت پڑی؟

اقدس افضل: مفتاح اسماعیل نے کام ٹھیک کیا ہےوہاں تبدیلی کی وجہ صرف سیاسی ہے ہر جماعت میں اپنی پسند اور ناپسند ہوتی ہے۔

جنگ: اگراسحاق ڈار موجودہ حکومت آنےکے موقع پر ملک میں ہوتے تو وہی وزیرخزانہ بنتے مفتاح اسماعیل کویہ ذمہ داری نہیں ملتی ،اسحاق ڈار ن لیگ کی پہلی چوائس ہیں۔

حیدر: کہا جاتا ہے ڈالر کی قیمت کو مصنوعی طور پر روکا گیا ہےاس کا کیا مطلب ہے؟

شبر زیدی: یہ ٹھیک بات ہے ،ابھی حوالے کا ریٹ 265 ہے اور باقی کچھ اور،وہ روکا ایسے ہے آپ نےایل سیز روک دی ہیں، آپ ایل سی میچور نہیں کررہے تو ڈیمانڈ کم ہوگئی ہے۔ آج آپ بینک کے پاس ایل سی کھلوانے جائیں توپہلے وہ پوچھتے ہیں بتائیں آپ کا ایکسپورٹ کا ان فلو کہاں سے آرہا ہے، تیکنیکی طور پر اسٹیٹ بینک ڈیمانڈ پیدا ہی نہیں رہا ۔بینکوں سے کہا گیا ہے کہ آپ ایل سی تب کھولیں جب امپورٹریہ بندوبست کرلے کہ ڈالر کہاں سے آئے گاتو یہ تیکنیکی ڈیفالٹ ہے۔

ثمینہ: اگر حالات سے نمٹنے کے لیے افرادی قوت میں خواتین کی تعداد بڑھانی پڑےگی تو وہ مواقع بھی کہاں ہیں کیا ہماری حکومتیں اس پر متفق ہیں ؟

ڈاکٹر اقدس افضل: شبرزیدی کی تجاویز پر عمل کروانا خود ایک بڑا چیلنج ہے،اپریل مئی میں ہم سری لنکا کی طرح ہونے جارہے تھے آج ہمیں پٹرول 225 کو مل رہا ہے اس کے بعد قیمت آسانی سےچارسو روپے فی لٹر پر ہوتی وہ ابھی بھی جاسکتی ہے۔ ہمیں سیاسی وابستگی سے مبرا ہوکر صرف پاکستان کےمفاد میں سوچنا چاہیے۔

ثنا توفیق: پچھلے سال جتنے لوگ باہر گئے ہیں اتنی تعداد رواں برس کے چھ مہینوں میں بیرون ملک گئی جس کی وجہ ہمارا لیبر طرح طرح کے دبائو میں ہےتو اگر آپ نے ملک کو چلانا ہے تو لانگ ٹرم میں بہتر فیصلے کرنے پڑیں گے، اسٹرکچرل ریفارمز لانی پڑے گی۔

شبر زیدی: اگر کوئی شخص یہ سمجھتا ہے کہ پاکستان کا کرنٹ اکاونٹ خسارہ اگلے دس سال میں ٹھیک ہوجائے گا تو وہ بیوقوف ہے اور وہ جھوٹ بول رہا ہےکیوں کہ ایسا نہیں ہوسکتا۔ ہم سچ بولیں اور تسلیم کریں کہ ہم ناکام مملکت ہیں کیوں کہ جب ہم اس کو تسلیم کریں گے توپھر کامیابی کی طرف جائیں گے جب مانیں گے نہیں اس فریب سے نکلے گے نہیں تو جائیں گے کیسے۔

ہم پاکستان کو بہتر ملک دیکھنا چاہتے ہیں لیکن جب ہم حقیقی زندگی میں ہوتے ہیں تو حقیقی اورخواہش والے ملک میں بڑا فرق ہے،انڈیا میں ڈالر86 اور پاکستان میں 265کا ہے،1991 میں ہم 31 پر تھے اورانڈیا 32پر تھا۔یہ ساری چیزیں پاکستان کی انرجی اکنامکس سے نکل رہی ہیں،پاکستان کی تین اکنامکس ہیں، فسکل اکاونٹ، کرنٹ اکاونٹ اور انرجی اکانومی،پاکستان کی انرجی اکانومی کا بل 28بلین ڈالر ہے جب تک آپ اپنے انرجی اکنامک کا قابو میں نہیں لائیں گے ملک کاکوئی امپورٹ ایکسپورٹ بیلنس نہیں ہوسکے گا،ہماری کئی بڑی غلطیاں ہیں اسے ٹھیک کرنا ہے۔

ثنا توفیق: پاکستان کی اقتصادی صورت حال تشویش ناک ہے،ڈیفالٹ بہت سخت لفظ ہے، ڈیفالٹ نہیں نظر آرہا۔

ڈاکٹر اقدس افضل: پاکستان کی معیشت کو بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے جیو پولیٹیکل حالات سے ہماری معیشت خطروں میں گھری ہے،ایسی صورت حال میں ہمیں کسی پالیسی تجربے کی ضرورت نہیں ہے موجودہ حکومت جو کررہی ہے یہ ہی پالیسی اگلے انتخاب تک جاری رکھےکوئی بھی بڑے فیصلے اگلے الیکشن کے بعد ہی ہونے چاہییں، اس حکومت کے پاس بڑے فیصلوں کا مینڈیٹ ہوگا ۔

جنگ: پاکستان ڈی فالٹ کرگیا یاڈی فالٹ کرجائے گاکہنا درست نہیں لیکن یہ کہنا بھی درست نہیں کہ پاکستان ڈی فالٹ نہیں کرے گا،خدشات ہیں تو ہم اس موضوع پر بات کررہے ہیں یعنی ہم اس لائن پر ہیں، ہمیں کسی طرح ڈالر کمانے ہیں ہمارا ریمی ٹینس گررہا ہے، ایکسپورٹ تنزلی کا شکارہے ہے امپورٹ زیادہ ہےگزشتہ چارسا ل میں ہمارے قرضے دوگنے ہوگئے ہیں، ری پے کا مسئلہ پھر آرہا ہے،پچھلے کئی برسوں سے طالبان صورت حال کے بعد سے حالات میں سرمایہ کاری کیسے ہوگی، تو ان حالات میں کہ باوجود کہا جائےکہ ہم دیوالیہ نہیں ہوسکتے ان جملوں سے صرف بہلایا جاسکتا ہے لہذا یہ حقیقت ہے ہم خطرے میں ہیں۔

ہمیں بازار آج نہیں 25سال پہلے ہی چھ بجے بند کرنا کا حکم دینا چاہیے تھا۔ہماری مارکیٹ چار بجے کھلتی ہیں اور ہم چھ بجے بازار جاتے ہیں، ایسا ترقی یافتہ ملکوں میں بھی نہیں ہے، اس خطرے سے نکلنے کےلیے ہمیں اپنی طرز زندگی بدلنا پڑے گا۔