کراچی(ٹی وی رپورٹ)وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ نے کہا ہے کہ عدالت نے پرویز الٰہی کو عبوری ریلیف دیا ہے،فیصلہ11 جنوری کو کرے گی۔ پرویز الہی کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ وزیر اعلی کو اسمبلی منتخب کرتی ہے، آئین کے تحت دو شقوں کے ذریعے ہٹایا جاسکتا ہے، ق لیگ کے رہنما کامل علی آغا نے کہا کہ پنجاب میں کوئی سیاسی سیٹلمنٹ نہیں ہوئی۔ وہ جیو نیوز کے پروگرام ”نیا پاکستان شہزاد اقبال کے ساتھ“ میں میزبان شہزاد اقبال سے گفتگو کررہے تھے۔ پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ نے مزید کہا کہ عدالت نے گورنر کا نوٹیفکیشن کالعدم نہیں کیا صرف معطل کیا ہے، عدالت نے پرویز الٰہی کو عبوری ریلیف دیا ہے اور انہیں کوئی قدم اٹھانے سے روک دیا ہے، گیارہ جنوری کو سماعت کے بعد عدالت فیصلہ کردے گی کہ کس کا موقف درست ہے، عدالت کا فیصلہ یہی ہوگا کہ وزیراعلیٰ پنجاب کو گورنر کی ایڈوائس پر اعتماد کا ووٹ لینا پڑے گا، پرویز الٰہی اعتماد کا ووٹ لینے کے بعد بے شک اسمبلی تحلیل کردیں ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔ رانا ثناء اللہ کا کہنا تھا کہ پرویز الٰہی کے پاس نمبرز پورے ہیں تو ثابت کریں پھر اسمبلی توڑ دیں، منظور وٹو کیس میں بھی عدالت نے اعتماد کا ووٹ لینے کیلئے دس دن دیئے تھے، پرویز الٰہی اعتماد کا ووٹ لینے میں ناکام رہے تو نئے وزیراعلیٰ کا الیکشن ہوگا، پرویز الٰہی اسمبلی توڑیں یا نہیں توڑیں ہمیں دونوں صورتوں میں فائدہ ہے، پرویز الٰہی کو 17دسمبر کو اسمبلیاں توڑنے سے کس نے روکا تھا، یہ اسی وقت سمری پر دستخط کر کے اسمبلیاں تحلیل کردیتے۔ رانا ثناء اللہ کا کہنا تھا کہ اسلام آباد کے بلدیاتی اداروں کی مدت 2020ء میں پوری ہوئی تھی، تحریک انصاف نے ڈھائی سال اسلام آباد میں بلدیاتی انتخابات کیوں نہیں کرائے، پی ٹی آئی والے جھوٹی اور بے بنیاد باتیں کرتے ہیں یہ بے کردار لوگ ہیں، پی ٹی آئی گورنر ہاؤس کے باہرلوگ اکٹھے نہیں کرسکی لاہور نے انہیں مسترد کردیا ہے، گورنر نے اسپیکر کو اپنے عمل کو درست کرنے کیلئے چوبیس گھنٹے دیئے تھے، چیف سیکرٹری نو بجے اپنے آفس پہنچے سوا دس بجے انہیں خط پہنچا دیا گیا، چیف سیکرٹری نے نوٹیفکیشن ملنے کے بعد قانونی مشاورت کیلئے وقت لیا، اگر چیف سیکرٹری نوٹیفکیشن پر دستخط نہیں کرنا چاہتے تو عہدہ چھوڑ دیتے، چیف سیکرٹری سے زبردستی دستخط کرانے کے الزامات غلط ہیں۔ رانا ثناء اللہ نے کہا کہ بنوں کا واقعہ افسوسناک ہے، بنوں میں ہمارے جوانوں نے جانوں کی قربانی دے کر دہشتگردوں کا خاتمہ کیا، اسلام آباد پولیس نے مشکوک گاڑی کو روک کر فرض شناسی کا ثبوت دیا، پولیس اہلکار نے اپنی جان کا نذرانہ دے کر دہشتگردی کا بڑا واقعہ رونما ہونے سے روک لیا، سیکیورٹی فورسز دہشتگردی سے نمٹنے کیلئے پوری طرح چوکنا ہیں، خیبرپختونخوا حکومت صوبہ چھوڑ کر زمان ٹاؤن میں بیٹھی ہوئی ہے، خیبرپختونخوا میں پولیس کا بھٹہ بیٹھ گیا ہے۔ شہزاد اقبال: قانونی طور پر سمجھائیے گا گورنر کا نکتہ تھا کہ اگر وزیراعلیٰ نے اعتماد کا ووٹ نہیں لیا وہ انہیں ڈی نوٹیفائی کرسکتے ہیں، عدالت گورنر کے نوٹیفکیشن کے حوالے سے کیا کہتی ہے؟ پرویز الٰہی کے وکیل بیرسٹرعلی ظفر: جہاں تک گورنر کا نوٹیفکیشن تھا یا آرڈر تھا جسے وہ آرڈر کہتے ہیں، انہوں نے آرڈر یہ دیا تھا کہ، انہوں نے پہلے تو سیشن بلایا تھا کہ اسپیکر صاحب چیف منسٹر سے اعتماد کا ووٹ لیں، گورنر نے چونکہ اسپیکر کو اس کیلئے پورا وقت نہیں دیا تھا، صرف دو دن کا ٹائم تھا اور انہوں نے ایک گھنٹے میں سب کارروائی مکمل کرانے کیلئے کہا تھا، اسپیکر نے کہا کہ میں ایک سیشن چلارہا ہوں میں اسے adjourned کروں گا، میں آپ کا آرڈر نہیں مان سکتا، میں یہ سیشن کال نہیں کروں گا، یہ لڑائی گورنر اور اسپیکر میں ہورہی تھی، دونوں اپنے اپنے موقف پر قائم تھے، لیکن جب اسپیکر نے سیشن نہیں بلایا تو گورنر نے اس کی سزا چیف منسٹر کو دیدی جن کا اس سے کوئی تعلق نہیں تھا، سیشن نہیں بلایا گیا تو چیف منسٹر اعتماد کا ووٹ لے ہی نہیں سکتے تھے، لیکن گورنر نے آرڈر دیا کہ چونکہ آپ نے اعتماد کا ووٹ نہیں لیا اس لئے میں آپ کو ہٹادیتا ہوں، اس کے بعد گورنر کو خیال آیا کہ میں تو ہٹا ہی نہیں سکتا، یہ تو چیف سیکرٹری کو نوٹیفائی کرنا پڑتا ہے، گورنر نے چیف سیکرٹری کو خط لکھا کہ آپ نوٹیفائی کریں، چیف سیکرٹری نے گورنر کو واپس خط لکھا کہ میں یہ نہیں کرسکتا اس میں بہت ساری قانونی پیچیدگیاں ہیں آپ مجھے رائے لے کر دیں، اس کے بعد گورنر نے اپنے تین پرائیویٹ وکیل جو ان کے ذاتی وکیل ہیں ان سے ایڈوائس لے کر چیف سیکرٹری کو بھجوادی، چیف سیکرٹری نے ان کی ایڈوائس پر ڈی نوٹیفائی کردیا اور کابینہ بھی ختم کردی اور چیف منسٹر کو بھی ختم کردیا، ہم نے یہ چیز چیلنج کی تھی، ہمارا عدالت کے سامنے موقف تھا کہ لڑائی ہورہی ہے گورنر اور اسپیکر کی لیکن آپ چیف منسٹر کو سزا دے رہے ہیں جس کا کوئی قصور نہیں ہے، اسے کہا جائے گا اور سیشن بلایا جائے گا تو وہ اعتماد کا ووٹ لے لیں گے۔