• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

صاحبِ فہم قارئین اِس بات کو سمجھتے ہیں کہ مضبوط انتظامیہ کے بغیر حکومتی نظام نہیں چل سکتا۔ قانون اور آرڈیننس تشکیل پاتے ہیں، مگر مؤثر طور پر عمل درآمد نہیں ہوتا۔ آزادی کے بعد،انتظامی نظام میں جس کھلواڑ کی وجہ سے پاکستان کو سوفٹ سٹیٹ Soft State یا بنانا ریپبلک Banana Republic جیسے خطاب ملتے ہیں، اِس تحریر میں اُنہی تبدیلیوں کا ذکر ہے۔

ہندوستان میں غیر ملکی تسلط سے آزادی حاصل کرنے کی سیاسی جدوجہد شروع ہوئی تو برطانوی حکومت نے بتدریج مقامی لوگوں کو حکومتی معاملات میں شریک کرنے کا آغاز کیا۔ منٹومارلے ریفارمز کے نتیجے میں 1919ء کا ایکٹ پاس ہوا اور ہندوستانیوں کو کارِسرکار میں شامل کرنے کا راستہ کھلا۔ اِس ابتدا کے بعد 1935ء میں نافذ ہونے والے ایکٹ کے تحت، 1937ء میں انتخابات کا انعقاد ممکن ہوا اور صوبائی حکومتیں وجود میں آئیں۔ برطانوی حکومت چاہتی تھی کہ مضبوط بنیادوں پر اُستوار نظام حکومت اور ادارے ، مقامی سیاست دانوں کو اختیار ملنے کے بعد بھی اپنے فیصلوں میں آزاد رہیں۔ اُنہیں دو خدشات تھے، انڈین آرمی اور سول انتظامیہ میں بے جا سیاسی دخل اندازی۔ اِسی خوف کے مدنظر، فوج میں اندرونی احتساب کا مضبوط نظام وضع کیاگیا۔ فرائص کی روگردانی یا ڈسپلن کی خلاف ورزی پر اندرونی جوابدہی کا نظام قائم کیا گیا۔ ضروری سمجھا گیا کہ کسی اور کی بجائے جونیئر اپنے سینئر افسراوں کے روبرو جواب دہ ہوں۔ اِن قوانین اور ضوابط سے انڈین آرمی کے انتظامی معاملات،سیاست سے محفوظ، فوج کی اپنی ہائی کمان کے دائرہ اختیار میں رہےہیں۔

سول انتظامیہ نے بہرحال عوامی نمائندوں کے تحت اپنی ذمہ داریاں سرانجام دینا تھیں۔ برطانوی حکومت کو اندیشہ تھا کہ مقامی قیادت کی سیاسی مجبوری، انتظامیہ کی غیر جانبداری متاثر کرے گی۔ اپنے ساتھیوں کو نوازنے کے لیے، سرکاری ملازمین پر دبائو ڈالا جائے گا۔ نئی بھرتیوں، اہل کاروں کے تبادلوں اور انتظامی اُمور میں مرضی کے فیصلے کروانے کی کوشش ہو گی۔ سول انتظامیہ کو سیاسی دبائو سے بچانے کے لیے 1935ء کے ایکٹ میں مختلف شقوں کے ذریعے اِس امکان کا سدباب کیا گیا۔ سرکاری ملازمین کو آئینی تحفظ فراہم ہوا ۔ بھرتی کے نظام کو سیاسی دخل اندازی سے محفوظ رکھنے کے لیے گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ کے تحت صوبائی حکومتوں میں سیاست دانوں کے کردار کو قانون کے دائرے میں رکھنے کے لیے مختلف ضابطے وضع کئے گئے۔ ہر صوبے کے لیے 1935ء کے ایکٹ میں یہ لازم تھا کہ پبلک سروس کمیشن تشکیل دیا جائے گا اور تمام سرکاری ملازمین کی بھرتی پر صرف اُس کا اختیار ہو گا۔ ایکٹ میں لکھا گیا کہ اچھی شہرت کے حامل ریٹائرڈ سول سرونٹ کمیشن کے رُکن بن سکیں گے۔ اُن کی تنخواہ، مراعات اور شرائط ملازمت قانون کا حصہ بنا دی گئیں۔ اُنہیں قبل از وقت عہدے سے ہٹانے کے لیے مخصوص ضابطوں اور طریقۂ کار کی وضاحت کی گئی۔ تعیناتی کی میعاد مقرر کرنے کے ساتھ ہی یہ شرط بھی عائد کی گئی کہ اِس مدت میں توسیع نہیں ہو گی۔ پبلک سروس کمیشن سے ریٹائر ہونے کے بعد کمیشن کا رُکن، کسی سرکاری ملازمت کا اہل نہیں ہو گا۔ اِس فیصلے کے پیچھے یہ حکمت تھی کہ کمیشن میں تعیناتی کے دوران، حکومت کسی وعدۂ فردا کا لالچ دے کر اپنی مرضی کے فیصلے نہ کروا سکے۔

قارئین کے لیے شاید یہ بات حیرت کا باعث ہو کہ فوج کے اندرونی نظام کی طرح، 1935ء کے ایکٹ میں سرکاری ملازمین کی ترقی اور اُن کے خلاف تادیبی کارروائی بھی متعلقہ پبلک سروس کمیشن کے دائرۂ اختیار میں تھی۔ انتظامیہ، سرکاری ملازم کی ترقی کے لیے سفارش کرتی، مگر حتمی منظوری پبلک سروس کمیشن کی سکروٹنی کے بعد ملتی۔ اِسی طرح نااہلی،بددیانتی یا کسی اور کوتاہی پر سزا کی سفارش پر عمل درآمد سے پہلے کمیشن کی منظوری لینا لازم قرار دیا گیا۔ سرکاری ملازم، گورنمنٹ کے کسی فیصلے کو عدالت میں چیلنج کرے تو پبلک سروس کمیشن اپنی صوابدید پر سرکار کو حکم دے سکتا تھا کہ مقدمے کا خرچ سرکاری خزانے سے ادا کیا جائے۔ ہر برس، کمیشن کی کارکردگی پر مشتمل رپورٹ، اراکین اسمبلی کے سامنے رکھی جاتی۔ اِس چیک اور بیلنس کے نظام کا مقصد یہ تھا کہ کمیشن کی کارکردگی پر عوامی نمائندے نظر رکھیں اور غلطیوں کی نشاندہی کریں۔

آزادی کے بعد 1935ء کے ایکٹ میں قائد اعظم کی منظوری سے، وزیر اعظم لیاقت علی خان نے یہ تمام شقیں پاکستان کے عبوری آئین میں شامل کیں۔ اُنہیں چوں کہ قانونی دائرہ اختیار میں سیاسی دخل اندازی سے مکمل تحفظ حاصل تھا، اِسی لیے قائداعظم نے سرکاری ملازمین کو ہدایت دی، ’’حکومتیں آتی جاتی رہتی ہیں، پرائم منسٹر تبدیل ہوتے ہیں مگر آپ نے کسی دبائو کے بغیر قانونی ضابطوں کے مطابق فیصلے کرنے ہیں۔‘‘ 1956ء میں جب پاکستان کا پہلا آئین نافذ ہوا تو سرکاری ملازمین کے آئینی تحفظ کے علاوہ وفاقی اور صوبائی پبلک سروس کمیشن کی تشکیل اور دائرہ اختیار میں کوئی تبدیلی نہ آئی۔ ایوب خان کے مارشل لاء میں تطہیری عمل نے سرکاری ملازمین کا اعتماد متاثر کیا مگر 1962ء کے آئین میں بھی سرکاری ملازمین کا قانونی تحفظ اور پبلک سروس کمیشن سے متعلق آرٹیکل قائم رہے۔ سرکاری ملازمین کو عوامی خدمات پر اعزازات عطا کیے جاتے۔ یحییٰ خان کے مارشل لاء میں بھی 303 سرکاری ملازمین کو بے جا تطہیر کا سامنا کرنا پڑا مگر سول سروس سے متعلقہ آئینی انتظام اور پبلک سروس کمیشن کے قانون میں کوئی تبدیلی نہ ہوئی۔ ذوالفقار علی بھٹو کا دور حکمرانی،مارشل لاء کے اختیارات سے شروع ہوا۔ 1400 سرکاری ملازمین بغیر وجہ بتائے گھر بھیج دیے گئے مگر 1973ء کے آئین میں، سول انتظامیہ کے حوالے سے تین تبدیلیاںدُور رس نتائج کی حامل تھیں۔ پہلی تبدیلی کا تعلق سرکاری اعزازات سے تھا۔ نہ صرف آئین میں آرٹیکل 259کے تحت سرکاری ملازمین کو پہلے سے ملے ہوئے حکومتی اعزاز واپس لیے گئے بلکہ آئندہ کیلئے کارِ سرکار میں اچھی کارکردگی کو تسلیم کرنے کا ذکر ہی ختم کر دیا گیا۔ دُوسری تبدیلی کا تعلق وفاقی اور صوبائی پبلک سروس کمیشن سے تھا۔ کمیشن کی تشکیل، اراکین کی شرائط ملازمت اور دائرہ اختیار کا ذکر کیے بغیر، آئین میں صرف اتنا لکھا گیا کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیںاپنی صوابدید کے مطابق قانون بنا سکتی ہیں۔ آئین کے نفاذ کے بعد، پنجاب حکومت نے آرڈیننس نافذ کیا اور کمیشن کے چیئرمین، حکم عدولی پر کسی قانونی کارروائی کے بغیر برطرف ہوئے۔ رفتہ رفتہ باقاعدہ قانون سازی کے ذریعے وفاقی اور صوبائی کمیشن تو قائم ہوئے مگر دائرہ اختیار محدود کر دیا گیا۔ تیسری تبدیلی اُن شقوں کا خاتمہ تھا جو سرکاری ملازمین کو صوابدیدی برطرفی کے خلاف آئینی تحفظ فراہم کرتی تھیں۔

1947ء میں ہندوستان اور پاکستان آزاد ہوئے۔ دونوں ممالک میں برطانوی حکومت کا تشکیل دیاہوا انتظامی نظام موجود تھا مگر آزادی کے بعد اِس نظام کے ساتھ مختلف سلوک ہوا۔ آئندہ تحریر میں اِس کا ذکر کیا جائے گا۔

تازہ ترین