• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہم ہر چیز کے پیچھے اسٹیبلشمنٹ ڈھونڈتے ہیں، مصطفیٰ نواز

کراچی (ٹی وی رپورٹ)جیو کے پروگرام ”آپس کی بات“میں میزبان منیب فاروق سے گفتگو کرتےہوئے سابق سینیٹر مصطفیٰ نواز کھوکھر نے کہا کہ ہم ہر چیز کے پیچھے اسٹیبلشمنٹ ڈھونڈتے ہیں، سینئرصحافی و تجزیہ کار،سلیم صافی نے کہا کہ دوسری جماعتوں کے لوگ جو توشہ خانہ توشہ خانہ کہہ رہے ہیں اپنا حساب کیوں نہیں دے رہے ہیں، سینئر صحافی اور تجزیہ کار شہزاد اقبال نے کہا کہ آئین سے باہر نکل کر اقدامات ہرگز نہیں کرنا چاہئے۔ نئی سیاسی جماعت بنانے کی خبروں سے متعلق سوال پر سابق سینیٹر مصطفیٰ نواز کھوکھر نے کہا کہ اپنی کوششیں آگے بڑھانے کیلئے اسٹیبلشمنٹ کو میرے جیسا آدمی ملا ہے تو پھر اللہ ہی اس ملک کا حافظ ہے، شاہد خاقان عباسی سابق وزیراعظم اور متعدد بار وزیر رہے ہیں، پچھلے سات سالوں کی سیاست نے ہمارے ذہن ایسے بنادیئے ہیں کہ ہم کسی آرگنک چیز کو اس کی فیس ویلیو پر لینے کیلئے تیار نہیں ہیں، ہم ہر چیز کے پیچھے اسٹیبلشمنٹ ڈھونڈتے ہیں، ہم ملک میں تبدیلی دیکھناچاہتے ہیں، ہمیں اس ملک کو بہتر بنانا ہے، ہمارامعاشرہ انتشار زدہ ہوچکا ہے، سیاستدان اور سیاسی جماعتیں پاور پالیٹکس سے آگے دیکھ نہیں پارہی ہیں، ان حالات سے نالاں کچھ لوگ اگر بطور سیاستدان غیرجانبدارانہ طریقے سے ایک سوچ سامنے لانے اور ایشوز کی سیاست کو قومی بحث کا حصہ بنانے کا سوچیں تو اسے کسی دوسری طرف جوڑنا زیادتی ہوگی۔ مصطفی نواز کھوکھر کا کہنا تھا کہ ماضی میں تمام تجربات کیے جاچکے ہیں ،اسٹیبلشمنٹ کی ہماری سیاسی تاریخ میں بڑا کردار ہے، جس طرح کراچی میں کچھ جماعتوں کو اچانک اکٹھا کیا گیا، ایک مخصوص جماعت سے دوسری مخصوص جماعت میں لوگوں کا سیاسی سفرجاری ہے، پاکستان میں ایسے لوگ ابھی موجود ہیں جنہوں نے سخت ترین ماحول کے باوجود دباؤ تسلیم نہیں کیا، اس حوالے جیو نیوز کے مالک میر شکیل الرحمٰن ایک بڑی مثال ہیں، میر شکیل الرحمٰن اور ان کے خاندان نے اس کیلئے بڑی سختیاں برداشت کیں، مصطفی نواز کھوکھر نے کہا کہ پاکستان میں سیمینارز عمومی طور پر این جی اوز یا تھنک ٹینکس کرواتے ہیں، ہماری اور ان کی کوششوں میں فرق یہ ہے کہ ہم خود سیاستدان ہیں اور ہم نے خود یہ قدم اٹھایا ہے، ہم کسی این جی اوز سے منسلک نہیں ہے نہ ہی ہم اسٹیبلشمنٹ کے کسی ایجنڈے پر ہیں، ہمارے ساتھ سیاست اور بیوروکریسی کے تجربہ کار لوگ ہیں انہیں ملکی مسائل کا علم ہے، بلوچستان کی قومی اسمبلی میں 17سیٹیں نیشنل ایجنڈے میں کسی جماعت کیلئے اہمیت نہیں رکھتی ہیں۔ سینئرصحافی و تجزیہ کار،سلیم صافی نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ محسن نقوی ہمارے محترم ہیں انہوں نے بڑی محنت کی ہے بڑے اچھے صحافی ہیں بہت سمجھدار ہیں۔میری ذاتی رائے ہے کہ صحافیوں کو سرکاری عہدے دینے کا سلسلہ سیاستدانوں کو بھی بند کردینا چاہئے اور خود صحافیوں کو بھی کوئی بھی سیاسی یا سرکاری عہدہ قبول نہیں کرنا چاہئے۔صحافت پاکستان میں پہلے سے زیادہ متنازع ہوگئی ہے بدنام ہوگئی ہے اس سے وہ مزید متنازع ہوتی ہے۔میں نے پہلے بھی نجم سیٹھی ، فہد حسین کے سامنے ہاتھ جوڑے تھے کہ آپ یہ کام نہ کریں میں ان سے بھی التماس کروں گا کہ وہ اگر صحافی ہیں تو ان کو اس سے معذرت کر دینی چاہئے۔اسٹیبلشمنٹ کے لئے بھی اس وقت معیشت قابل تشویش ہے اور معیشت کے لئے وہ یہ چاہتے ہیں کہ کوئی سیاسی استحکام ہو۔ اگر آپ اسمبلیاں توڑتے ہیں دوبارہ الیکشن کرتے ہیں تو وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اس کی وجہ سے معیشت کے لئے جو ایک ماحول چاہئے وہ نہیں بن سکتا پہلے سے بھی بہت مشکلا ت ہیں۔نئے انتخابات میں اگر عمران خان یا دوسرے لوگ آتے ہیں تو ظاہر بات ہے معیشت کو اس حال میں تو انہوں نے ہی پہنچایا ہے ۔یہ تو نہیں ہوگا کہ ان کے آتے ہی معیشت درست ہوجائے گی اس لئے یہ ان کی بھی اور موجودہ حکومت کی بھی خواہش ہے کہ اکتوبر تک یہ سسٹم چلے ۔دوسری جماعتوں کے لوگ جو توشہ خانہ توشہ خانہ کررہے ہیں تو اپنا حساب کیوں نہیں دے رہے ہیں۔
اہم خبریں سے مزید