اسماعیلؔ میرٹھی
کرے دشمنی کوئی تم سے اگر
جہاں تک بنے تم کرو درگزر
کرو تم نہ حاسد کی باتوں پہ غور
جلے جو کوئی اس کو جلنے دو اور
اگر تم سے ہو جائے سرزد قصور
تو اقرار و توبہ کرو بالضرور
بدی کی ہو جس نے تمہارے خلاف
جو چاہے معافی تو کر دو معاف
نہیں، بلکہ تم اور احساں کرو
بھلائی سے اس کو پشیماں کرو
ہے شرمندگی اس کے دل کا علاج
سزا اور ملامت کی کیا احتیاج
بھلائی کرو تو کرو بے غرض
غرض کی بھلائی تو ہے اک مرض
جو محتاج مانگے تو دو تم ادھار
رہو واپسی کے نہ امیدوار
جو تم کو خدا نے دیا ہے تو دو
نہ خست کرو اس میں جو ہو سو ہو