مریم فاطمہ
مصر کے جنگل میں ایک شہزادہ چند بکریاں چراتا اور ان سے حاصل ہونے والے دودھ اور جنگل کے پھلوں پر گزارہ کرتا۔ وہ تھا تو شہزادہ ،مگر نہ تو اس میں شاہوں والا غرور تھا اور نہ ہی وہ جاہ وجلال۔ وہ عام انسانوں کی طرح زندگی بسرکرتا۔روکھی سوکھی کھاتا بیشتر وقت اپنی رعایا کی خدمت اور خدا کی یاد میں بسرکرتا۔
اس کی نیک چلنی کا پوری ریاست میں چرچا تھا۔ اسے یہ خصوصیات اپنے رحمدل باپ سے وراثت میں ملی تھیں۔ ایک دن شہزادہ معمول کے مطابق رعایا کے مسائل سننے کے بعد جنگل میں ،دنیا سے بے نیاز، خداکی یاد میں محو تھا، کہ اس نے دیکھا کہ ایک غریب لکڑہارا اپنے گدھے کو ساتھ لئے ہوئے لکڑیاں کاٹ رہاہے اور اس سے باتیں بھی کیے جارہا ہے حالانکہ اسے معلوم تھا کہ نہ تو گدھا اس کی بات سن رہاہے نہ ہی سمجھ رہا ہے اور پھروہ زاروقطار رونے لگا۔
شہزادہ یہ دیکھ کر بہت حیران ہوا کہ لکڑہارا روزانہ لکڑیاں کاٹتا،گدھے سے چند باتیں کرتا اور پھر پھوٹ پھوٹ کے رونے لگتا۔چندروز یہی معاملہ رہا،جب رحمدل شہزادے سے اس کارونا دیکھا نہ گیا اور وہ یہ گتھی سلجھانے میں ناکام رہاتو بلاآخردرخت کی اوٹ سے باہر آگیا اور لکڑہار سے پوچھا،’’اے لکڑہارے تیرے اس طرح بلک بلک کررونے کی وجہ کیا ہے؟‘‘ غریب بوڑھا ،ہمدرد انسان سامنے پاکر اور شدت سے رونے لگا اور سسکیوں کے ساتھ اپنی بدبختی کی کہانی سنانے لگا۔
’’میرا ایک بیٹاتھا، جسے خدانے بے تحاشہ دولت سے نوازاتھا ہر طرح کاعیش اسے میسر تھا ،مگر اس دولت کاغرور اس قدرحاوی ہوچکا تھا کہ اسے اپنی دولت کے سوا کچھ دکھائی نہ دیتا تھا۔ اپنے غریب رشتہ داروں کودھکے دیتا،انہیں ذلیل ورسواکرتا۔ پھر اس کی بربادی کادن آگیا اور میری دور کی ایک رشتہ دار دوسرے شہر سے میرے گھر سوالی بن کر آئی یہ سوچ کرکہ مشکل میں اپنے ہی کام آتے ہیں، وہ بہت غریب تھی اس کی بیٹی کی شادی قریب تھی، مگر کوئی انتظام نہ ہوپایا تھا، اسے کچھ رقم کی ضرورت تھی،وہ اللہ کی نیک بندی تھی ،مگر میرا بیٹا دولت کے نشے میں اندھا ہوچکا تھا، اس عورت کو دھکے مارکر گھر سے نکال دیا۔یہی وہ وقت تھا جب ہماری بربادی شروع ہوئی۔ اسی رات سرخ آندھی چلی بجلی کڑکی اور تیز بارش ہوئی۔
میں اور میرابیٹا اپنے نرم بستر پر میٹھی نیند سورہے تھے، اور وہ عورت پوری رات ہمارے دروازے سے لگی روتی رہی ،شدید طوفان اور رات کے گھنے اندھیرے میں دوسرے شہر واپس جانا اس کےلئے ممکن نہ تھا، اور وہ ضعیف عورت پوری رات اس طوفان کا مقابلہ کرتی رہی اور میرے بیٹے کورحم نہ آیا صبح جب میری آنکھ کھلی تو مجھ پہ قیامت ٹوٹ پڑی۔میرابیٹا گدھے کی صورت اختیار کرچکا تھا۔
گھر کاساراسامان آسمانی بجلی گرنے سے جل کرخاک ہوچکاتھا سب کچھ برباد ہوگیا تھا،اس سب میں میراقصور یہ تھا کہ میں نے اپنے بیٹے کوغرور وتکبر کرنے سے نہ روکااور اب یہ عالم ہے کہ میں جنگل سے لکڑیاں کاٹتا ہوں اور اپنے ہی بیٹے پہ لاد کر بیچنے لے جاتا ہوں ،اور اسی سے ہم باپ بیٹے کا گزرا چلتا ہے۔‘‘یہ سن کر شہزادے کی آنکھیں نم ہوگئیں اور وہ لکڑہارے سے مخاطب ہوا،اے ضعیف انسان! تو نے بہت ظلم کیا۔
بے شک برائی پر خاموش رہنااور اسے نہ روکنا،اس کا ساتھ دینے کے مترادف ہے تونے اپنے بیٹے کوبرائی سے نہ روکا، مجھے تیری حالت پر افسوس ہے‘‘۔اب میں اپنی اس غریب رشتہ دارکی تلاش میں مارا مارا پھرتا ہوں۔اس کی تلاش مجھے رلاتی ہے شاید وہ میری مدد کرسکے وہ مجھے مل جائے میں اس سے معافی مانگوں گا۔شاید میرے گناہوں کاازالہ ہوسکے، مگر افسوس وہ مجھے کہیں نہیں ملتی‘‘۔یہ کہہ کرلکڑہارا رونے لگا۔
شہزادے نے اس کے آنسو پونچھتے ہوئے کہا،’’تو اپنے گناہوں کی معافی اللہ سے مانگ۔وہ بہت رحیم ہے، اگر اس نے تجھے معاف کردیا تو وہ تجھے اس عورت تک پہنچانے کاکوئی نہ کوئی سبب ضرور بنادے گا، وہ بہت مہربان ہے۔اپنے بندوں پر ظلم نہیں کرتا۔‘‘بوڑھا لکڑہارا اسی وقت سجدے میں گرکر بلک بلک کر اپنے گناہوں کی معافی مانگنے لگا۔اچانک دورسے کسی گھوڑے کی ٹاپوں کی آواز سنائی دینے لگی۔ایک خوبصورت شہزادی سفید رنگ کے حسین گھوڑے پر سوار تھی۔
قریب آکرشہزادے سے مخاطب ہوئی ،’’اے شہزادے آخر یہ کیا ماجرا ہے؟ شہزادے نے بوڑھے کی رام کہانی شہزادی کوسنادی۔ شہزادی کی آنکھوں میں آنسو جاری ہوگئے اور وہ گھوڑے سے اتری اور لکڑہارے سے کہنے لگی ،میں ہی وہ لڑکی ہوں جس کی ماں تیرے در پر سوالی بن کر آئی تھی،مگر اے بدبخت تیرے مغرور بیٹے نے اس نیک عورت کی زندگی ہی چھین لی۔ساری رات تیرے دروازے پر تیز بارش میں طوفان کامقابلہ کرتی رہی،کہ شاید تجھے رحم آجائے۔بالآخر تیزبارش کی ٹھنڈی بوندوں کووہ بوڑھی جان برداشت نہ کرسکی اور دنیا سے چلی گئی۔
جب صبح ہوئی تورحمدل بادشاہ معمول کے گشت پر تھا ،اس کاوہاں سے گزرہوا،وہ میری ماں کوجب گھرلایا توماں کی لاش دیکھ کر میرے پیروں تلے سے زمین ہی نکل گئی،اب میرا سہارا کوئی نہ تھا۔ بادشاہ یہ سب دیکھ کر بہت پریشان ہوابالآخر اس نے مجھے اپنے ساتھ لے جانے کافیصلہ کیا کچھ عرصہ میں اس کے محل میں رہی اور سے نے مجھے نیک لڑکی پا کراپنے بیٹے سے میری شادی کرادی۔
شاید یہ میری ماں کی دعاؤں کا نتیجہ تھا،جس نے میری خاطر اپنی جان قربان کردی اور اس رب نے مجھ غریب کو فرش سے اٹھا کر عرش پر بٹھا دیا اور اس نیک شہزادے سے میری شادی کرادی جواس وقت تیرے سامنے کھڑا ہے اور تجھے تیرے مغرور بیٹے کے کرموں نے عرش سے فرش پر گرادیا۔‘‘
خدا کی قدرت دیکھ کر لکڑ ہارا شرمندگی سے زمین میں گڑھتا جارہا تھا اور رورو کر شہزادی سے معافی مانگی۔ شہزادی بہت رحمدل تھی۔ لکڑ ہارے کے آنسوؤں سے اس کا دل بھر آیا اور اس نے اس کو معاف کردیا، خدا کی قدرت، لڑکا اس لمحے اپنے اصل روپ میں واپس آگیا اور خدا کے حضور سجدے میں گرگیا اور شہزادی سے بھی معافی مانگنے لگا۔ شہزادی نے اسے بھی معاف کردیا۔ بلآخر دونوں باپ بیٹا اپنی جھونپڑی کی طرف روانہ ہوگئے۔