اسلام آباد(اے پی پی)سپریم کورٹ میں پاکستان ریلویز کی زمینوں کی لیز سے متعلق کیس کی سماعت کے موقع پر چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطاء بندیال نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ ریاست کا کام کاروبار کرنا نہیں ہے۔ پاکستان سمیت پوری دنیا میں ثابت ہو چکا ہے کہ ریاستی اداروں کا کام کاروبار کرنا نہیں ہوتا۔ چیف جسٹس نے مزید کہا کہ پاکستان اسٹیل ملز، پی آئی اے اور دیگر اداروں میں کاروبار کا نتیجہ دیکھ لیا ہے۔ ریاستی ادارے اسی لئے خسارہ میں ہیں کیونکہ ان پر حد سے زیادہ بوجھ ڈال دیا جاتا ہے۔ کسی بھی ریاستی ادارے کو کاروبار کرنے سے پہلے پارلیمنٹ سے اجازت لینا ہوتی ہے۔ عدالت عظمی نے پاکستان ریلویز کو عوامی استعمال کے لئے زمین لیز پر دینے کی اجازت دیتے ہوئے حکم دیا کہ پاکستان ریلوے کی لیز ہونے کے بعد زمینوں کی حیثیت نا تبدیل کی جائے۔ پاکستان ریلویز کی زمین پر اگر پارک ہے تو اس پر تعمیرات نا کی جائیں۔ سپریم کورٹ نے مزید کہا کہ پاکستان ریلویز اپنی زمینوں سے متعلق قانون سازی پارلیمنٹ یا کابینہ سے کرائے۔ قبل ازیں کیس کی سماعت کے موقع پر پاکستان ریلوے نے بزنس پلان عدالت میں جمع کرا دیا۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمن نے عدالت کو بتایا کہ ریلوے کے پاس مجموعی طور پر 1 لاکھ 69 ہزار ایکڑ سے زائد زمین ہے۔ انہوں نے کہا کہ ریلوے کی 1 لاکھ 26 ہزار زمین آپریشننل مقاصد اور 16 ہزار 742 ایکڑ زمین مستقبل کی پلاننگ کے لئے مختص کی گئی ہے۔ عدالت کو بتایا گیا کہ ریلویز کی 9 ہزار 985 ایکڑ زمین پر تجاوزات قائم ہیں۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان نے عدالت عظمی کو بتایا کہ ریلوے کی 10 ہزار 750 ایکڑ زمین اس وقت لیز پر دی گئی ہے اور پاکستان ریلویز کی تقریبا 6 ہزار ایکڑ زمین کسی استعمال میں نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کے لیز کی پابندی کے حکم کے بعد ریلوے کی 2.5 ارب روپے کی آمدن رک گئی ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے دوران سماعت اس موقع پر استفسار کیا کی پاکستان ریلوے کو سیلاب کے دوران نقصان کتنا پہنچا ہے؟۔ چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے اس موقع پر ریمارکس دیئے کہ اپنے بزنس پلان میں ریلوے نے اپنی آمدن، اخراجات اور نقصان کی تفصیل نہیں دی۔ جس پر سیکرٹری ریلویز نے موقف اختیار کیا کہ اگر عدالت لیز کء اجازت دے تو ہم نے طے کیا ہے کہ پاکستان ریلویز لیز کی جانے والی ہر پراپرٹی کے بدلے ریلوے اپنا حصہ لے گی۔ انہوں نے کہا کہ لاہور کے دل میں متروکہ وقف املاک کی ایک پراپرٹی 500 روپے لیز پر لے کرایہ دار اس پر لاکھوں روپے کرایہ وصول کر رہا ہے۔ اس موقع پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ ریلوے لیز پر دی گئی زمینوں پر حصہ لینے کے حوالہ سے ایک نیا پنڈورا باکس کھول رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایف بی آر کے اربوں روپے کے کیسز عدالتوں میں زیر التوا ہیں اور ادارہ کی معاونت صفر ہے۔